62-63 کی تشریح لازم ہو گئی‘ فوجی ہو یا عام شخص مجرم کو سزا عدالت ہی دیتی ہے : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے لئے دائرآئینی درخواستوں کی سماعت میں عدالت نے اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 23 اکتوبر تک ملتوی کر دی جبکہ درخواست گزار کو اپنے معروضات تحریری طور پر عدالت میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ  قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو خود کو دنیا کے لئے ناگزیر سمجھتے تھے، آئین میں چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں تاہم کچھ خاص معاملات میں مخصوص وجوہ کی بنا پر چند عہدوں پر فائز افراد کو آئینی طور پر استثنیٰ بھی حاصل ہے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ حاکم اور محکوم کی تفریق موجود ہے تو اس کی غلط فہمی ہے، جرم ثابت ہونے کے بعد سزا تو کسی عدالت نے ہی دینی ہے، آئین میں چھوٹے بڑے کی کوئی گنجائش نہیں، یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ کسی کے ساتھ تفریق برتی جا رہی ہے، آئین سازی عدالت کا نہیں پارلیمنٹ کا کام ہے۔ جسٹس دوست محمد نے کہاکہ آئین میں صادق اور امین کی بھی واضح تعریف یا تشریح نہیں کی گئی اس لئے اٹارنی جنرل معاونت کریں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو  ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ اس وقت ملک سے باہر ہیں، مقدمے کی کارروائی ملتوی کی جائے۔ عدالت کے روبرو درخواست گزار گوہر نواز سندھو نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ معاملے کو سننے کی سپریم کورٹ مجاز اتھارٹی ہے عدالت سے سزا ہونے کے بعد معاملہ سپیکر کو بھیجا جائے گا۔ انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور محمد اظہر صدیقی کے کیسز کے فیصلوں کو بطور نظیر پیش کیا تواس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل خواجہ سعید ظفر نے آیت اللہ ڈاکٹر عمران لیاقت حسین کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ان آئینی مندرجات کی تشریح عدالتِ عظمیٰ کر چکی ہے لیکن کیونکہ مذکورہ نظیریں اٹھارویں آئینی ترمیم سے پہلے کی ہیں، آئین کی موجودہ شقوںکی تشریح اب لازم ہے، گیلانی کی نااہلی کا معاملہ وزیراعظم نواز شریف کے کیس سے مختلف تھا۔ یوسف رضا گیلانی کو عدالت نے سزا دے دی تھی، ان کا معاملہ سپیکر کے پاس بھجوانے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا جس پر عدالت نے قرار دیا کہ یہ سوالات 2010ء اور اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد پہلی مرتبہ عدالت کے پیشِ نظر ہیں اور آرٹیکل نمبر 62,63,66 کی آئینی تشریح لازم ہو گئی ہے جس وجہ سے عدالت مناسب سمجھتی ہے کہ اٹارنی جنرل آف پاکستان کو زیر آرڈر 27A ضابطہِ دیوانی معاونت کے لئے طلب کیا جائے۔ گوہر سندھو نے کہا کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے قبل سپیکر اسمبلی کو ہی اختیار تھا کہ کسی رکن کی صداقت یا جھوٹا ہونے کا تعین کرے لیکن کیوں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد سپیکر کو یہ اختیار نہیں رہا اور ایسا اختیار عدالت کو سونپا گیا ہے لہٰذا عدالتیں ہی اس سوال پر فیصلہ اور حکم صادر کر سکتی ہیں۔ اس بناء پر سائل نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ان حالات میں ہائی کورٹ کا یہ کہنا کہ یہ دلیل سیاسی نوعیت کی ہے اور عدالت کو اختیارِ سماعت نہ ہے، درست نہیں ہے۔ جب عدالت سزا دے گی تو سپیکر کا کام شروع ہوتا ہے۔ جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ یہ تفریق 1947ء سے پہلے تھی آج نہیں، کچھ معاملات میں کسی خاص وجہ سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔ ہمارے دین کے مطابق قاضی کے سامنے ہر کسی نے پیش ہونا ہے، جرم ثابت ہونے کے بعد سزا تو کسی عدالت نے ہی دینی ہے ،گوہر سندھو نے کہا کہ عدلیہ کی کوئی توہین کرے تو آرٹیکل 204 موجود ہے کاش یہاں پر فوج کے حوالے سے کچھ لکھ دیا جاتا، تو جسٹس خواجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ آئین اور قانون نہیں بناتی یہ کام پارلیمنٹ کا ہے۔ جب آئین سازوں نے آئین بنایا تو ان کے ذہن میں ضرور کچھ ہو گا۔ گوہر سندھو نے کہا کہ میں تو سپریم کورٹ کا بڑا احترام کرتا ہوں سب کو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو ماننا چاہئے، جسٹس خواجہ نے کہا کہ سب لوگ اس بات کا خیال نہیں رکھتے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں گوہر نواز سندھو ایڈووکیٹ کی جانب سے پٹیشن زیر آرٹیکل 185(3) آئین پاکستان کے تحت دائر کی گئی ہے۔ سائل نے  پٹیشن نمبر 23456/14 لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی تھی جو کہ عدالت عالیہ کے ایک رکنی بنچ نے 02.09.2014 کو خارج کر دی۔ ثناء نیوز کے مطابق عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق کیس میں فریقین کو نوٹسز جاری کرنے کیلئے درخواست گزار کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کہتے ہیں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ حاکم اور محکوم کی تفریق موجود ہے تو اس کی غلط فہمی ہے، جرم ثابت ہونے کے بعد سزا تو کسی عدالت نے ہی دینی ہے، چاہے وہ فوجی ہو یا کوئی عام شخص۔ ہمارے دین کے مطابق قاضی کے سامنے ہر کسی نے پیش ہونا ہے، جرم ثابت ہونے کے بعد سزا تو کسی عدالت نے ہی دینی ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے  عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ  رکوڈک  کیس کے سلسلہ میںبیرون ملک ہیں، ایک دو روز تک عدالتی معاونت کیلئے موجود ہونگے ۔ گوہر سندھو نے کہا کہ میری درخواست  وزیراعظم کو نااہل کرانے سے متعلق ہے اور ان کو سزا دئیے بغیر نااہل قرار  نہیںدیا جا سکتا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ  آئین سے روگردانی نہیں کی جا سکتی، آئین کہتا ہے کہ سزا کے بغیر کسی کو نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے سماعت آئندھ ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار کے استفسار پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اس درخواست کی سماعت آئندہ ہفتے بدھ یا جمعرات کو کرینگے لیکن پی ٹی آئی اور چودھری شجاعت کی درخواست پر بھی سماعت پہلے کرینگے۔ بعدازاں تحریری فیصلہ میںعدالت نے کہا ہے کہ سائل کا استدلال آرٹیکل 62,63,66 آئینِ پاکستان پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی شخص جو صادق اور امین نہیں ہے وہ کسی قومی یا صوبائی اسمبلی کا ممبر بننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ عدالت  نے اپنے عبوری حکم میں کہا ہے کہ آئین کی موجودہ شقوںکی تشریح اب لازم ہے۔
سپریم کورٹ

ای پیپر دی نیشن