شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے 14 اگست 1951ء یعنی اپنی شہادت سے صرف دو ماہ اور دو دن پہلے کراچی کے جہانگیر پارک میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’قوم نے مجھ پر جو اعتماد کیا ہے اور جو محبت مجھے دی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کا بدلہ کس طرح ادا کروں۔ دولت میرے پاس نہیں، جائیداد کا مالک میں نہیں اور میں خوش ہوں کہ میں ان چیزوں سے محروم ہوں کیونکہ یہی وہ چیزیں ہیں جو انسان کے ایمان کو کمزور کرتی ہیں۔ میرے پاس صرف میری زندگی ہے جسے میں پاکستان کے لئے وقف کرچکا ہوں۔ میں قوم کو اس کے سوا اور کیا دے سکتا ہوں کہ اگر پاکستان کے دفاع کیلئے اور اس کی حرمت کیلئے قوم کو اپنا خون بہانا پڑا تو لیاقت علی خان کا خون اس میں شامل ہوگا۔‘‘
قائداعظم کے دستِ راست نوابزادہ لیاقت علی خان کا شمار تحریک پاکستان کے اُن رہنمائوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنا سب کچھ پاکستان کیلئے قربان کر دیا تھا۔ اُنہوں نے قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک عوامی تحریک کی شکل دی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم سازی کیلئے اُنہوں نے پورے ہندوستان کے دورے کیے اور ہمیشہ اپنی جیب سے ٹکٹ خرید کر ٹرین کی سیکنڈ کلاس میں سفر کیا۔ بابائے قوم آپ کے خلوص‘ ایثار اور تنظیمی صلاحیتوں کے بڑے معترف تھے۔اس لیے اُنہوں نے اِس نوزائیدہ مملکت کی وزارتِ عظمی کے منصب کیلئے آپ کا انتخاب کیا۔ اُس وقت ہمارا ملک گونا گوں مسائل میں گھرا ہوا تھا۔ تباہ حال مہاجرین کی آمد جاری تھی۔ اُنہوں نے اُن کی بحالی کیلئے دن رات ایک کردیا۔ جب قائداعظم محمد علی جناح وصال فرما گئے تو لیاقت علی خان نے قوم کو حوصلہ دیا اور اُس کی رہنمائی کی جس کی بدولت پاکستان بتدریج اپنے پائوں پر کھڑا ہونے لگا۔ اُن کی خواہش تھی کہ پاکستان کا جو بھی آئین تشکیل دیا جائے، اُس کی اساس دین اسلام پر ہو۔ لہٰذا اُنہوں نے یہ فریضہ تمام اسلامی مکاتب فکر کے اتفاق رائے سے قراردادِ مقاصد کی صورت منظور کروا کر انجام دیا جو بلاشبہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے۔
اُن کا تعلق ایک نواب خاندان سے تھا مگر اُن کی زندگی فقر و قناعت سے عبارت تھی۔ اُن کی زندگی ہمارے موجودہ حکمرانوں کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا یہ وزیراعظم اچکن کے نیچے جو پتلون پہنا کرتا تھا‘ اُس کے اچکن کے نیچے چُھپے ہوئے حصے پر اکثر پیوند لگے ہوتے تھے۔ اپنی شہادت سے قبل 14 اگست 1951ء کو یومِ آزادی کے موقع پر کراچی کے جہانگیر پارک میں ایک جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا تھا: ’’میرے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے کہ یہ چیز ایمان میں خلل ڈالتی ہے۔ میرے پاس ایک جان ہے‘ وقت آنے پر وہ بھی پاکستان پر قربان کر دوں گا۔‘‘ اور اُنہوں نے واقعی ایسا کر دکھایا۔ آج کا دن ہمیں اُس مردِ جری کی یاد دلاتا ہے جس کے لبوں پر شہادت کے وقت یہ الفاظ تھے کہ ’’اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔‘‘ جب اُنہیں شہید کر دیا گیا تو اُن کے بینک اکائونٹ میں صرف ڈیڑھ سو روپے موجود تھے اور اُن کی بنیان پر پیوند لگے ہوئے تھے۔ ایک شہید ہونے کی حیثیت سے اُن کا درجہ بہت بلند ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اُن کی شہادت آج تک ایک معمہ ہے۔ درحقیقت اُن کی حب الوطنی پاکستان کے دشمنوں کے عزائم میں بہت بڑی رکاوٹ تھی۔ لہٰذا اُنہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے ایک جلسے میں شہید کروا دیا گیا۔ اُن جیسے دیانتدار سیاستدان عہد حاضر میں نایاب ہو چکے ہیں۔ جو لوگ خود کو پاکستانی قوم کے رہنما قرار دیتے ہیں، اُنہیں ایک لمحے کیلئے ضرور سوچنا چاہیے کہ اُن کے فکر و عمل میں شہید ملت کے کردار سے کوئی مطابقت پائی جاتی ہے یا نہیں۔
نوابزادہ لیاقت علی خان وہ پاکستان کو معاشی طور پر آزاد رکھنا چاہتے تھے۔ بڑی طاقتوں کی حاشیہ برداری سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے جواب میں اُنہوں نے 27 جولائی 1951ء کو ایک عظیم الشان جلوس سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کو للکارا اور پاکستان کی طاقت کا مظہر اپنا مُکا لہرا کر کہا تھا کہ آج سے یہ مُکا پاکستانی قوم کا علامتی نشان ہو گا۔
وطن عزیز کے اِس بطل جلیل کی 63ویں برسی کے موقع پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت تحریک پاکستان کے نامور کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ نے کی۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں نہ صرف تحریک پاکستان کے قائدین بلکہ اِس کے مشاہیر کی یاد بھی بڑے تزک و احتشام سے منائی جاتی ہے۔ یہ ملک کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور یہاں قرآن و سُنت کی روشنی میں ہی تبدیلی آسکتی ہے۔ لیاقت علی خان ایک غیور شخص تھے۔ جب اُنہیں دولت مشترکہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت ملی تو اُنہوں نے کہا کہ جب تک مسئلہ کشمیر کو کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جاتا‘ تب تک میں اِس میں شرکت نہیں کروں گا اور واقعی جب کشمیر کو ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا تو وہ کانفرنس میں شریک ہوئے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے اندرونی انتشار و افتراق سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور افغانستان ہماری سرحدوں پر دبائو بڑھا رہے ہیں اور ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس صورتحال میں نوابزادہ لیاقت علی خان جیسے بہادر رہنما کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ خدا تعالیٰ ہمارے قائدین کو شہید ملت کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نشست سے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر اور روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر مجیب الرحمن شامی‘ معروف تجزیہ نگار قیوم نظامی‘ ولید اقبال ایڈووکیٹ‘ محفوظ النبی اور پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے بھی خطاب کیا۔ نظامت کے فرائض نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔
ملت کا وقار … نوابزادہ لیاقت علی خان
Oct 17, 2014