بدھ کی رات گلستان جوہر کراچی میں کچی پہاڑی رات کی تاریکی میں اچانک اپنے حواس کھو بیٹھی اور چکرا کر ریت کی دیوار کی طرح دھڑام سے زمین بوس ہو گئی۔ مٹی کا یہ دیو ہیکل تودہ گرنے سے تیرہ انسان چشم زدن میں زندہ درگور ہو گئے۔ منگل کی شب سارے دن کی محنت مزدوری کے بعد بہاول پور اور رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے محنت کش تھک ہار کر اپنے معصوم جگر گوشوں اور وفا شعار بیویوں کے ساتھ اپنی خانہ بہ دوش جھگیوں میں دبک کر نیند کی آغوش میں گئے تو کسی کو بھی خبر نہیں تھی کہ یہ ان کی زندگی کی آخری شب ہے ٗ بدھ کا سورج ان کی موت کا پروانہ لے کر ابھرے گا اور صبح کے اخبارات کی شہ سرخیاں ان کی پر اسرار موت کا عنوان بن جائیں گی۔ پورا ملک اس سانحہ کی مذمت کرے گا ٗٹی وی پروگراموں میں اشک بار اور شعلہ فشاں تعزیتی پروگرام ہوں گے ٗ سیاسی مذہبی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے چھان بین کے مطالبے ہوں گے اور صرف ایک دن بعد کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ کچھ بدبودار پوتڑوں میں لپٹے معصوم بچے ٗزندگی کی رنگا رنگی سے بے نیاز کچھ عورتیں اور کچھ تن بدن تک مشقت میں دھنسے مزدور پچھلی رات تک زندہ تھے اور زر و دولت کی ہوس کے مارے درندوں کی بدولت زندگیوں سے محروم کر دئیے گئے ٗکبھی کبھی پتہ ہی نہیں چلتا اور موت کا فرشتہ کسی قبضہ گروپ ٗکسی مافیا کی شکل میںیاقاتل کا روپ دھار کر وارد ہوتا ہے اور آنا فانا کئی زندگیوں کے چراغ گل کر دیتا ہے۔
سانحہ گلستان جوہر میں مٹی کے ملبے میں دب کر زندگی کی بازی ہارنے والوں میں یہ سب سندھی تھے ٗ نہ پنجابی اور نہ ہی پاکستانی ٗیہ غریب الوطن لوگ تھے جو اپنے ہی وطن میں بے وطن ہیں ٗ یہ زندہ ہوں یا موت کے گھاٹ اتار دئیے جائیں ٗان کی شناخت جنوبی پنجاب سے آگے نہیں بڑھتی۔
لاہور کہتا ہے تم سندھیوں جیسے ہو سندھ چلے جائو ٗ کراچی کہتا ہے تم پنجاب کے ہو پنجاب چلے جائو۔ لاہور اور کراچی کے درمیان بس ایک موت ہے جو انہیں ہر وقت گلے لگانے کے لئے مضطرب رہتی ہے اور زندگی کے جھمیلوں سے نجات کے لئے ان کے لئے آسان ترین راستہ بھی یہی ہے ٗیہ موت کو گلے لگاتے ہیں تو نہ تو کراچی کے قبرستان ان بے گورو کفن لاشوں کو پناہ دیتے ہیں اورنہ ہی وطن کی مٹی انہیں قبول کرتی ہے۔
کراچی میں سرائیکی مزدوروں کی اجتماعی موت کا یہ سانحہ کوئی نیا نہیں۔قبضہ مافیا کراچی میں پلاٹوں پر قبضے چھڑانے اورپلاٹوں پر رہائش پذیر جھگی نشینوں کو بے دخل کرنے کے لئے ایسے ایسے غیرانسانی گُر آزماتی ہے کہ انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔ یہ بے چارے قبضہ مافیا کے ہاتھوں کھلونا بنے رہتے ہیں ٗ ایک گروہ انہیں خالی زمینوں پر قبضہ کے لئے بساتا ہے اور دوسرا گروہ اسی زمین پر قبضہ کے لئے اجاڑ دیتا ہے۔
ذرا چند سال پیچھے جھانک کر دیکھ لیجئے ٗپچھلے بیس سالوں میں ٗسرائیکی مزدوروں کی جھگیوں میں آتشزدگی کے درجنوں پراسرار واقعات رونما ہوئے جن میں سیکڑوں لوگ زندہ جلا دیئے گئے۔ خاندانوں کے خاندان چشم زدن میں بھسم کر دئیے گئے ٗیہ سب کے سب سرائیکی وسیب سے تعلق رکھتے تھے۔آج تک کسی ایک واقعہ کی چھان بین نہیں ہوئی ٗ آج تک کسی ایک بھی مجرم کے گریبان پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا اور آج تک کسی ایک متاثرہ کے ولی وارث کو ایک روپیہ تک امداد کے قابل نہیں سمجھا گیا۔اس معاملے میں نہ پنجاب حکومت کبھی آگے بڑھتی ہے اور نہ سندھ حکومت کو کبھی کسی پر ترس آتا ہے۔یہ اس خطے کے لوگ ہیں جو پیٹ بھرنے اور تن ڈھانپنے کے لئے گندم اورکپاس کی ملکی پیداور کا ساٹھ سے اسی فیصددیتے ہیں لیکن خود روٹی کپڑے سے محروم رہتے ہیں۔
بات دور تک نکل جائے گی لیکن لکھ دیتا ہوں ٗ ستر کی دہائی میں تخت لاہور کی کوتاہیوںنے ایک بنگلہ دیش تخلیق کیا تھا ٗاب سندھ اور پنجاب مل کر ایک نئے "بنگلہ دیش" کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ کراچی میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے مزدور خاندانوں پر قیامت بیت گئی ٗ سیاسی جماعتیں اونگھتی رہیں ٗ صبح شام عوام عوام کے نعرے لگانے والے سیاستدانوں کو ذرا ترس نہیں آیا۔ کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان کی مدد کو آتا۔اس بار بھی سانحہ گلستان جوہر کی چھان بین کے لئے کمیٹی بنی ٗاس نے بھی سب کو ’’کلین چٹ‘‘ تھما دی۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی قاتل بچ نکلے۔
عمران لیگ نے این اے 122 لاہور کے ضمنی انتخاب پر 25 کروڑ لگا دئیے ٗنواز شریف اور شہباز شریف نے 125 کروڑ صرف ایک نشست پر پھونک دئیے ٗنہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا ٗلعنت ہے اس پیسے کی سیاست پر ٗ کراچی میں ایک سوچی سمجھی سازش کی بھینٹ چڑھنے والے تیرہ افراد کے لئے نہ سائیں سرکار کو امدادکا خیال آیا نہ تخت لاہور کے مغل شہزادوں کو کچھ سوجھا کہ وہ ان متاثرہ خاندانوں کی ذرا بھر ہی مدد کر دیتے۔
سندھ کے وزیر بلدیات سید ناصر علی شاہ اگر سید نہ ہوتے تو ان کے لئے بھی کوئی ’’ہدیہ‘‘ پیش کرتاکہ انہوں نے ان غم زدہ خاندانوں اور نعشوں کو بسوں میں ٹھونس کر اور سانحہ گلستان جوہر میں زندہ بچ جانے والوں کے ہاتھوں میں بسکٹ کے پیکٹ تھما کر انہیں چلتا کیا اوربہاول پور اور رحیم یار خان میں بھی کوئی خادم اعلیٰ یا اس کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا جو متوفین کی تجہیز و تکفین کے لئیے کوئی انتظام کرتا ٗ متاثرہ خاندانوںکے گائوں والوں نے چندہ کر کے ان نعشوں کو ٹھکانے لگایا۔
دہائی ہے دہائی ٗ سندھ اور پنجاب پر قابض انسان دشمن حکمرانوں پر ٗجناب! ملک ایسے نہیں چلتے ٗیہ پاکستان ایسے نہیں چلے گا ٗخدا کے لئے خود فریبی اور خودغرضی سے باہر آئیے اور غریب کو اس کا حق دیجئے ورنہ خلق خدا نے کوئی فیصلہ کر لیا تو آپ کو کہیں کوئی جائے امان نہیں ملے گی۔
تودے گرتے نہیں ٗگرائے جاتے ہیں!
Oct 17, 2015