درندگی کے واقعات میں اضافہ۔ کیا یہ دہشت گردی نہیں

Oct 17, 2015

ڈاک ایڈیٹر

مکرمی! ہمارے معاشرہ میں اب ایسے جرائم عام طور پر ہو رہے ہیں جن کے بارے میں کچھ عرصہ قبل ہمارے بوڑھے اور بزرگ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کو بھی ایسے وقت سے بچائے۔ گزشتہ روز لاہور کے مختلف علاقوں سے پولیس لفافوں اور شاپرز میں پیک ایک 22 سالہ لڑکی کے جسم کے مختف اعضاء ملے۔ پولیس کے مطابق اس لڑکی کو اغواء اور زیادتی کے بعد جرم چھپانے کی غرض سے قتل کر کے لاش کو بیدردی کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا اور پھر پولیس کو گمراہ کرنے کے مقصد کے ساتھ ان ٹکڑوں کو مختلف جگہوں پر پھینک دیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا حیوانیت پر مبنی جرم کرنے والے فرد یا افراد کسی مہذب معاشرہ میں کھلا چھوڑے جانے کے قابل ہیں۔ کیا یہ لوگ بلاتاخیر پھانسی پر لٹکائے جانے کے حقدار نہیں؟ پھر ہمارے وہ مذہبی علماء کرام اور اساتذہ کرام والدین کہاں ہیں جو بچوںکو انسانیت کا سبق سکھا کر رحمدلی، نرم خوئی اور بہادری جیسی خوبیوں کی حامل شخصیت بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے تھے۔ ہمارے وہ روایتی مشرقی مسلمان بھائی اور باپ کہاں ہیں جو اپنی بیٹیوں و بہنوں کے ہر طرح سے محافظ اور ان پر جان چھڑکتے تھے۔ کیا مذکورہ 22 سالہ لڑکی نے ظلم کا شکار ہو کر آخری سانسیں لیتے ہوئے اپنے بھائی یا باپ کو نہیں پکارا ہوگا؟ ایسے واقعات میں اضافہ کا رجحان خطرناک اور ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ (شیر سلطان ملک… لاہور0202-4127273 )

مزیدخبریں