اسلام آباد (اے پی پی + آئی این پی) پبلک اکائونٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کی جانے والی ادویات کے معیار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اس معاملے میں نفع و نقصان کو مدنظر رکھنے کی بجائے انسانی زندگی کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور ادویات کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اجلاس جمعہ کو یہاں پارلیمنٹ ہائوس میں کمیٹی کی کنوینئر شاہدہ اختر علی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت کیپٹل ایڈمنسٹریشن ڈویلپمنٹ (کیڈ) کے 1998-99ء کے زیرالتواء آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے کیڈ کو ہدایت کی کہ عدالتوں میں صحت کے شعبہ کے حوالے سے زیر سماعت مقدمات کی موثر انداز میں پیروی کی جائے۔ آڈٹ حکام نے کہا کہ ادویات کے معیار پر کوئی چیک ہونا چاہئے۔ راجہ جاوید اخلاص کے سوال کے جواب میں وزارت کیڈ کی جانب سے بتایا گیا کہ ادویات کا معاملہ صوبوں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور وفاق کی سطح پر ہمارے انسپکٹرز ادویات کے معیار کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردار کر رہے ہیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی سرکاری ہسپتالوں کو فراہم کی جانے والی ادویات کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ پمز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر الطاف نے کہاکہ تمام ادویات کے نمونے حاصل کر کے معیار پر پوری اترنے والی ادویات اور آلات خریدے جاتے ہیں۔ ادویات کا جو پہلا بیج آتا ہے اس میں سے ہم سیمپل کراچی میں موجود سنٹرل ٹیسٹنگ لیبارٹری کو بھجواتے ہیں۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ ادویات کی خریداری انسانی زندگی بچانے کیلئے ہونی چاہئے۔ اس کیلئے جامع پالیسی بننی چاہئے۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ نیب کے ملازمین کو ریکوریز میں صرف 0.04 فیصد حصہ ملتا ہے حالانکہ یہ 4 فیصد حصہ بنتا ہے، باقی پیسہ نیب کی زیرتعمیر عمارت میں لگا دیا جاتا ہے۔ کنونیئر کمیٹی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے حوالے سے کہا کہ پہلے 2 نمبر دوائی بنتی تھی اب 10 نمبر بنتی ہے۔ جس پر پمز حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی جن ادویات کو رجسٹرڈ کرتی ہے وہی ادویات ہسپتالوں میں لائی جاتی ہیں اور ڈراپ کی رجسٹریشن کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
سرکاری ہسپتالوں کیلئے ادویات کے معیار پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے: پی اے سی ذیلی کمیٹی
Oct 17, 2015