سرینگر (کے پی آئی) مقبوضہ کشمیر میں اتوارکو بھی بھارت کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری رہے۔ اس دوران شوپیاں کے ناگہ بل گاﺅں کے لوگوں نے فورسز پر الزام لگایا ہے کہ دوران شب فورسز نے رہائشی مکانات کے اندر گھس کر قیمتی اشیا کی توڑ پھوڑ کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر پیلٹ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ ناکہ بل شوپیاں میں کئی گھنٹوں تک پولیس و فورسز کے خلاف لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ نوجوانوں کو منتشر کرنے کیلئے فورسز نے ٹیرگیس شیلنگ اور پیلٹ فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 20 افراد زخمی ہوئے۔ مقامی لوگوں نے مزید بتایا کہ فورسز اہلکاروں نے نجی گاڑیوں کے بھی شیشے چکناچور کئے۔ کشتواڑ کے علاوہ ڈوڈہ، بھدواہ اور دوسرے علاقوں میں انتہاپسند بھارتی تنظیم آر ایس ایس کے خلاف مکمل ہڑتال کی گئی۔ کشتواڑ میں آر ایس ایس کی حالیہ ریلی کے خلاف مجلس شوریٰ کی اپیل پر ہڑتال کی گئی۔ اس دوران دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔ دوسری جانب انسانی حقوق کی علمبردار تین بڑی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا، ہیومن رائٹس واچ اور انٹرنیشنل کمشن آف جیورسٹس نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں وادی میں بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کا شدید نوٹس لیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ کو ختم کیا جائے، جس کے تحت چار سو سے زیادہ افراد بشمول بچوں کو پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ بیان میں حکام سے اپیل کی گئی کہ اس ایکٹ کو فوری طور واپس لے کر گرفتار کئے گئے افراد کی رہائی عمل میں لائی جائے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا پبلک سیفٹی ایکٹ بین الاقوامی ضابطوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے اس لئے اس کو فوری طور واپس لیا جانا چاہئے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ساﺅتھ ایشیا ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ حکومت کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ تشدد پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرے لیکن باضابطہ چارج کے بغیر گرفتاریوں سے غیرقانونیت بڑھتی ہے۔ میناکشی نے کہا کہ پی ایس اے کے تحت بچوں کی گرفتاری نہ صرف غیرقانونی ہے بلکہ سالوں تک اس کے منفی اثرات باقی رہیںگے۔
کشمیر