قانون کی حکمرانی قائم‘ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے اسباب دور کرنا ہو نگے: جسٹس ثاقب نثار

Oct 17, 2016

لاہور (کلچرل رپورٹر) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر بہت بڑا مسئلہ ہے، ہمیں اس مسئلے پر توجہ دینا ہوگی جلد فیصلے کرنا ہوں گے، ہر کام اکیلا آدمی نہیں کر سکتا بلکہ ایک ٹیم کر سکتی ہے، اس ٹیم میں صرف ججز نہیں بلکہ وکلاءبھی شامل ہیں، انشاءاللہ سب مل کر مسئلے کو حل کر لیں گے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں معروف قانون دان اور سابق وفاقی وزیر ایس ایم ظفر کی نئی تصنیف ”Understanding of Statutes“ کی تقریب رونمائی سے خطاب میں کیا، انہوں کہا کہ ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہوگا جس میں لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ملیں، وہ کلاس جو اپنے حقوق کے لئے نہیں لڑ سکتی ان کے لئے وکلاءکی مدد سے ہم لڑیں گے، لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے گا، انہیں انصاف خریدنا نہیں پڑے گا، قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہو گی، جب انصاف، مساوات اور قانون کی حکمرانی ہو گی تو پھر کسی چیز کی ضرورت نہیں ہو گی، عدالتوں کا انصاف کی فراہمی میں بڑا کردار ہے، حضرت علیؓ کا قول ہے کہ وہ معاشرہ جہاں انصاف نہ ہو وہ قائم نہیں رہ سکتا، ہمیں ایسا معاشرہ اور ادارے چاہئیں جن کی بدولت جلد انصاف ملے ، انشاءاللہ سپریم کورٹ اور دوسری عدالتیں انصاف کی جلد فراہمی میں کردار ادا کریں گی۔ انہوں نے کتاب کے حوالے سے کہا کہ یہ بہت اچھی اور خوبصورت کتاب اور ایس ایم ظفر کی اچھی کاوش ہے، میری زندگی میں جن تین لوگوں کا اہم کردار ہے ان میں ایک ایس ایم ظفر ہیں، انہوں نے اپنی کتاب میں وہ سب چیزیں لکھ دی ہیں جو ملک کے لئے ضروری ہیں، میں میاں محمود علی قصوری کے ساتھ بھی رہا ہوں۔ انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا ”قانون پڑھن نال نئیں سمجھن نال آﺅندا اے“ ایس ایم ظفر کی کتاب قوانین کو سمجھنے میں بہت مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ قانون مقننہ بناتی ہے عدالتیں قانون نہیں بنا سکتیں وہ صرف قانون کی تشریح کر سکتی ہیں۔ یہ کتاب قانون کی تشریح میں مدد دے گی۔آئی اےن پی کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ عدالتےں ہر صورت میں آئےن کا تحفظ کر ےں گی‘ ہم نے آئےن کے تحفظ کا حلف اٹھاےا ہے‘ رےاست چلانا عوام کے منتخب نمائندوں کا کام ہے‘ اعلیٰ عدلیہ کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ اس کی تشریح کرنا ہے‘ ہمارے مقاصد عوامی اہمیت کا مسئلہ اور بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے ،غریب اور امیر کے لئے قانون برابر ہوں گے تو قانون کی بالادستی ہو گی‘ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدالت کو نوٹس لینا چاہیے‘ مقدمات میں تاخیر کا سبب بننے والے عوامل ختم کرنا ہوں گے۔ تقریب میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مامون الرشید شیخ، جسٹس شاہد وحید، جسٹس علی اکبر قریشی‘ چیئرمین فیڈرل سروس ٹربیونل جسٹس ریٹائرڈ سید زاہد حسین، ڈین پاکستان کالج آف لا پروفیسر ہمایوں احسان، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران، میاں نجم ثاقب ایڈووکیٹ سمیت وکلا کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا مقدمات میں تاخیر کا سبب بننے والے عوامل کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ غریب اور امیر کے لئے قانون برابر ہوں گے تو قانون کی بالادستی ہو گی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ مجھے اس وقت کراچی میں ایک سڑک پر ہونا چاہیے تھا مجھے کئی بار کراچی بلایا گیا مگر میں نے جانے سے اس لئے معذرت کی کہ میں ایس ایم ظفر کا بہت احترام کرتا ہوں، ان کی کتاب کی تقریب سے غیر حاضر نہیں رہ سکتا تھا۔ جب میں نے وکالت شروع کی تو میرے سامنے دو آئیڈیل تھے ایک منظور قادر مرحوم اور دوسرے ایس ایم ظفر۔ شاہ صاحب نے مجھے بہت متاثر کیا ایک بار ایس ایم ظفر نے مجھے پوچھا کہ آپ نے عدلیہ بحالی تحریک چلائی اس میں کیا ملا میں نے انہیں کہا کہ اس تحریک میں وکلاءکا ایک حصہ متشدد اور ججز کا ایک حصہ متکبر ہو گیا۔ ہمایوں خان نے کہا کہ ایس ایم ظفر کی کتاب روشنی کا مینار ہے۔ ڈاکٹر پرویز حسن نے کہا کہ یہ کتاب ایس ایم ظفر کی اچھی کاوش ہے میں نے پڑھی ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ احمر بلال صوفی نے کہا کہ ایس ایم ظفر کی یہ معرکہ الآراءکتاب ہے یہ وکلاءکی رہنمائی کرے گی، بیرسٹر سید علی ظفر نے کہا کہ یہ کتاب نوجوان وکلاءکی رہنمائی کرے گی، صاحبِ کتاب ایس ایم ظفر نے کہا کہ مجھے خوش ہوئی کہ آج یہاں اردو میں تقریریں ہوئیں جو ہماری قومی زبان ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ متاثر ہو کر وکیل بنے میں بھی ایک شخص سے متاثر ہو کر وکیل بنا اور وہ شخص قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ اعتزاز احسن نے صحیح کہا بعض جج متکبر ہو گئے میں نے بھی اس لئے وکالت چھوڑ دی ہے کہ اب جج بات سنتے ہی نہیں۔ میں نے کتاب میں لکھا ہے کہ اسلامی اصولوں کو اپنایا جائے۔ جب ہم اپنے فیصلوں میں اسلامی اصولوں کو شامل کر لیں گے تو ان فیصلوں کی اہمیت بڑھ جائے گی۔

مزیدخبریں