شہید حکیم محمد سعید

Oct 17, 2017

شہید حکیم محمد سعید طبیب، ادیب، سائنس سے آپ کو دلچسپی، گورنر بن کر سیاست میں اپنا کردار ادا کیا، اس لئے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ جیسا کئی شعبوں میں مہارت رکھنے والا شخص خال ہی نظر آتا ہے ایسے انسان صدیوں بعد جنم لیتے ہیں۔ آج سے 19سال قبل 1998ءمیں آپ ہم سے جدا ہوگئے ۔ آپ ایک مذہبی و دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ آپ کو دوسروں کی خدمت کرکے روحانی آسودگی ملتی تھی آپ 9جنوری1920 ءمیں بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حکیم حافظ عبد المجید تھے۔ آپ نے5سال کی عمر میں قرآن حکیم ناظرہ کی تعلیم مکمل کی اور 9سال کی عمر میں قرآن حکیم حفظ کر لیا۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے ہی گھر سے حاصل کی اور 15سال کی عمر میں اردو، انگریزی، عربی، فارسی پر عبور حاصل کر لیا ۔ طب کی تعلیم طبیہ کالج دہلی سے حاصل کی اور20سال کی عمر میں اپنے بھائی عبد الحمید کے ساتھ طبی خدمات انجام دینے لگے۔آپ 9جنوری1948ءکو پاکستان آگئے اور آرام باغ پر اپنا مطب کھولا حکیم صاحب صرف طبیب ہی نہیں بلکہ ، محب وطن ، عاشق اسلام او ر بہت سی خصوصیات کے مالک تھے۔وہ طب کے ساتھ ساتھ تعلیم کے زبردست حامی تھے۔ تعلیم کے بارے میں انہوں نے فرمایا::”تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی اور نہ ہی سرفراز ہوسکتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی آزادی بھی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ علم آزادی کی قدر سکھاتا ہے ۔ تعلیم یافتہ لوگوں کو غلام بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔“ سورہ رحمن میں کم از کم 27نعمتوں کا ذکر آیا ہے اور پاکستان میں یہ تمام نعمتیں موجود ہیں۔“ حکیم صاحب کی عادت میں تلاوت، تہجد، صوم و صلوٰة تو تھا ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کی قدر بغیر رنگ، نسل اور زبان کے فرق کے کرتے تھے۔ آپ خوش مزاج تھے ‘ بچوں کو تو بہت پسند کرتے تھے طب وہ شعبہ تھا جو آپ کے معاش کا ذریعہ بنااور اس شعبہ کو آپ نے نہ صرف پاکستان بلکہ مغرب میں پھیلایااور اپنی طب کو ”طب مشرق کا“ نام دیاآپ کی طب کو World Health Organizationنے تسلیم کیا۔ آپ نے اپنے مطب کے بعدکراچی میں طبیہ شرقیہ کالج قائم کیا‘ہمدرد لیبارٹریز ،ہمدرد فاو¿نڈیشن پاکستان،ہمدرد یونیورسٹی،ہمدرد کالج آف سائنس اینڈ کامرس،ہمدرد کالج آف میڈیسن،ہمدرد کالج آف ایسٹرن میڈیسن،Dr.HMI(انسٹی ٹیوٹ آف فارماکولوجی اینڈ ہربل سائنسز، یہ طب کی وہ خدمات ہیں جن سے نہ صرف پاکستا ن بلکہ پورری دنیا استفادہ کر رہی ہے۔ آپ پاکستان سے محبت کرتے تھے اور آپ کے خیال میں پاکستان کی سب سے اہم ترین ضرورت تعلیم تھی۔ اس لئے آپ نے اس شعبہ پر خصوصی توجہ دی اورآج ہر والدین کی خواہش ہے کہ ان کے بچے ان کے اداروں میں تعلیم حاصل کریں۔ آپ نے ہمدرد کے نام سے پبلک اسکول ، ولیج اسکول ،مختلف کالج یہاں تک کہ ہمدرد یونیورسٹی قائم کی اور اس یونیورسٹی کو قائم کرنے کے لئے آپ کو ایک شہر بسانا پڑا جس کا نام آپ نے ” مدینة الحکمت“ رکھا۔ یہاں پر ایک مسجد بھی بنائی گئی۔غرضیکہ ابتدائی تعلیم سے لے کر ہر طرح کی تعلیم میں آپ کی خدمات موجود ہیں۔ اس شعبہ میں تعلیم کے لےے ہمدرد نونہال اسمبلی کی بنیاد ڈالی اور آپ نے اپنی آخری تقریر بھی نونہال اسمبلی میں ہی کی۔ یہ وہ شعبہ ہے جس کے ذریعہ آپ نے بندگان خدا کی خدمت ، علمی ، روحانی، دینی ، دنیاوی غرضیکہ ہر طریقے سے کی۔ آپ کو ہندوستان میں ہی صحت کے رسالے ”ہمدرد صحت کی ذمہ داریاں آپ کے بھائی عبد الحمید نے1939ءمیں سونپ دی تھیں۔آپ نے اپنا پہلا افسانہ ”تسبیح’‘ تحریر کیا، پاکستان پہنچنے کے بعد بھی آپ نے اس رسالے کی اشاعت کو جاری رکھا۔ ہمدرد صحت، ہمدرد نونہال، ہمدرد خبرنامہ، پیامی( یونیسکو کوریئر کا اردو ایڈیشن، نونہال ‘آواز اخلاق، اخبار الطب، ہمدرد میڈیکس(انگریزی مجلے) ، ہمدرد اسلامکس کے علاوہ بچوں کے مختلف رسائل میں بھی آپ کی تحریر یںشائع ہوتی رہیں۔ آپ نے اپنی تحریروں کے ذریعے اسلام کے ہر موضوع پر لکھا۔ سائنس کے شعبہ میں پاکستان کی نباتات کو متعارف کرایا۔مدینة الحکمت میں ایک سنٹر فار ہارٹی کلچر قائم کیا۔ سیاست کے میدان میں سندھ کے گورنر بن کر 19جولائی1993ءسے 22جنوری 1994 ءتک خدمت کی۔ادب کے شعبے میں مختلف موضوعات جیسے طب ، اسلام، اردو ادب پر لکھ کر اپنامنفرد مقام بنایا۔پاکستان سے محبت کرنے کا عملی کردار ادا کیا آپ کا فرمانا تھا:”اللہ تعالیٰ نے ہمیںپاکستان عطا فرمایا او ر اس عظیم پاکستان میں دنیاکا ہر موسم موجود ہے۔ دنیا کی ہر نعمت موجود ہے۔ صحرا بھی ہیں ، نخلستان ہیں، چمنستان بھی۔ بلند ترین پہاڑ بھی ہیں۔حسین وادیاں بھی ہیں ۔ آبشار بھی ہیں۔ دریا بھی ہیں، سمندر بھی ہیں، ہر پھل موجود ہے، ہر سبزی بھی ۔ غرض ہر نعمت جس کا تصور ممکن ہے پاکستان میں موجود ہے ۔ گویا پاکستان سورہ رحمن کی تفسیر ہے ۔بس یہاں قحط ہے پاکستان سے محبت کا۔یہاں کال پڑا ہے علم و عالم کے احترام کا۔“ علم اور عالم کی قدر نہیں کی تعلیم اور صحت گاڑی کے دو پہیئے ہیں جب تک یہ دونوں ساتھ نہیں چلیں گے اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا“۔بچوں کے لےے جواسمبلیوں کی بنیاد ڈالی اور”آج ہم ایک پنیری لگا رہے ہیں یہ چھوٹے چھوٹے پودے کل بڑے تناور درخت بن جائیں گے اور پاکستان کی خدمت کریں گے اور اس ملک پر چھا جائیں جس طرح بچوں کو غذا پوری نہ ملے تو ان کی صحت متاثر ہوگی اسی طرح اگر تعلیم پوری نہ ملی تو بچوں کا نقصان ہوگا۔آپ نے پوری زندگی علم او رطب کے لےے وقف کی او رمرنے سے دو دن قبل یعنی 15 اکتوبر1998ء(جمعرات) ایک اسکول میں منعقدہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے میں شرکت کی اور علم سے محبت کا ان کا عالم دیکھیں کہ اپنی تقریر کے خاتمے پر انہوں نے اعلان کیا کہ“ وہ لائبریری کے افتتاح کے موقع پر دوبارہ تشریف لائیں گے اور چار سو کتابوں کا سیٹ اسکول کی لائبریری کو عنایت فرمائیں گے ’ ’پاکستان سے محبت کرو۔ پاکستان کی تعمیر کرو“ مجیب الرحمن شامی حکیم سعید کے متعلق لکھتے ہیں ” وہ کتاب کا آدمی تھا لیکن کتاب نہیں تھا۔ حساب کا آدمی تھا لیکن حسابی نہیں تھا۔ وہ لفظوں کا آدمی تھا لیکن لفاظی نہیں تھا وہ کلیم تو تھا لیکن سربہ جبیں بھی تھا۔ وہ حکیم تو تھا لیکن سر بہ کف بھی تھا پیر روم کی صحبت میں رہنے والا اور رازی کی طرح نکتہ وری کے رازوں سے لطف اندوز ہونے والا بھی“۔

مزیدخبریں