برصغیر پاک و ہند میں اولیاء اللہ نے دین اسلام کی بے پناہ خدمت کی ان ہی اللہ کے نیک بندوں کی وجہ سے لاکھوں ہندوستان کے لوگوں نے دین اسلام قبول کیا اور یہی لوگ اس خطے میں دین اسلام کی اشاعت کا ذریعہ بنے سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی اجمیر شریف میں سوئے ہوئے ہیں ہندوستان میں 90لاکھ سے زائد لوگوں نے آپ کی وجہ سے دین اسلام قبول کیا۔ ہندوستان کے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر دوران اقتدار ایک بار خواجہ معین الدین چشتی کے روز سے اجمیر میں حاضری دینے گے صدر دروازے پر پہنچے تو دیکھا ایک نابینا شخص خواجہ سے بینائی مانگ رہا ہے۔ عالمگیر رکا اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ میں اندر روزے پر حاضری دیکر واپس آتا ہوں اس دوران اگر تمہیں نظر نہ ملی تو میں تمہارا سر قلم کرکے قتل کر دونگا۔ تھوڑی دیر بعد جب عالمگیر واپس آیا تو وہ نابینا شخص خوش و خرم بیٹھا ہوا جسے بینائی مل چکی تھی عالمگیر اسے دیکھ کر اور یقین کے بعد اس شخص کو انعام و اکرام سے نوازہ۔ اس کائنات کے اندر اقتدار کے دو نظام چل رہے ہیں ایک ظاہری دنیا کا نظام، حکومت ہے کئی پارلیمانی جمہوری، کئی صدارت، کئی بادشاہت وغیرہ۔ دوسرا باطنی روحانی دنیا کا نظام ہے جو تصوف کے راستے سے ملتا ہے اس روحانی حکومتی نظام میں چار طریقت قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ اور سہروردی نظام ہیں۔ چاروں کے سلسلے ہیں عشق و مستی کے اس روحانی نظام میں اس قدر لذت ہے کہ عام آدمی بھی محنت کرکے اس روحانی اقتدار کے اعلیٰ درجے پر پہنچ سکتا ہے۔اولیاء کرام بھی سچے تھے اور ان کے مریدین بھی پکے عقیدے کے باعمل لوگ تھے، پھر ایک دور آیا کہ جعلی اولیاء کرام جعلی پیرو فقیر دھوکا باز آئے جنہوں نے دین اسلام کو نقصان پہنچایا بدنام کیا، معصوم لوگوں کو لوٹتے رہے ایسا جعلی صوفیا کرام کا سلسلہ آج بھی موجود ہے اور ان کے خلاف ہر دور میں اللہ کے ولی آتے رہے، ہر دور میں اللہ کے ایسے برگزیدہ لوگوں کی مخالفت بھی کی جاتی رہی انہیں تنگ کیا جاتا رہا مگر انہوں نے اپنے مقدس مشن کو جاری رکھا۔
خواجہ نظام الدین کا کچا جھونپڑا دریائے جمنا کے کنارے تھا جہاں بادشاہ کے دربار سے زیادہ رونق رہتی تھی یہ دو حکومتی نظاموں کی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ایک خلجی بادشاہ کا دنیاوی حکومتی نظام اور دوسرا خواجہ نظام الدین کا باطنی حکومتی نظام تھا۔ جس میں لوگوں کے دلوں پر حکمرانی ہے اور یہی اصل حکمرانی ہے۔ ہر دور میں اور ہر علاقے میں باطنی روحانی نظام حکومت کاسلسلہ چلتا رہا اور آج بھی موجود ہے اس نظام کو وہی لوگ بہتر انداز میں سمجھتے ہیں جو اس راہ کے مسافر ہیں۔ جیسے دنیاوی نظام میں نظام حکمرانی کے عہدے ہیں یعنی وزیراعظم، صدر، سینئر وزیر سپیکر، وزیر بادشاہ وغیرہ ایسے ہی باطنی روحانی نظام حکومت میں بھی ہیں نے عرض کی قطب غوث ابدال وغیرہ عہدے ہیں اور یہ عہدیدار ہر دور میں اور ہر علاقے میں موجود رہتے ہیں۔ جب ایک علاقے سے ایک عہدیدار اٹھ جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرے کی ذمہ داری لگ جاتی ہے۔ روحانی دنیا کے یہ خلفا ایک کے بعد دوسرے آنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور یہ اپنے اپنے تصوف کے سلسلے میں چلتے رہتے ہیں جیسے حضرت معین الدین چشتی چشتیہ سلسلہ کے بانی ہیں آپ کو روحانی دنیا میں خلافت ملی ان کے جانے کے بعد نظام الدین اولیاء کو خلافت ملی اس طرح یہ سلسلہ جاری ہے اور اب تک جاری ہے اور انشاء اللہ روز قیامت تک جاری رہے گا۔ ہر طریقت کا اپنا سلسلہ ہے جیسے قادریہ کا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ سے ہے اسی طرح نقشبندی اور سہروردی بھی سلسلے ہیں جس کی لمبی تفصیل ہے جسے ایک کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔ اس کالم میں میرا جو بنیادی مقصد ہے وہ یہ کہ خانقاہی نظام بہت ہی اچھا ہے اس کی تاریخ میں بڑی اہمیت اور حیثیت ہے برصغیر میں جب تک یہ نظام مؤثر انداز میں چلتا رہا چاروں طرف امن و سکون تھا۔ یہ نظام اگرچہ آج بھی موجود ہے لیکن ہم نے اس سے وابستگی کمزور کر دی۔ علماء کرام نے خود خانقاہی نظام کو کمزور کیا۔ غیر ضروری طور پر خانقاہی نظام پر نکتہ چینی جاری رکھی جس سے عام مسلمان اس نظام سے دور ہوتے گئے۔ آج بھی کا ایک طبقہ اس نظام کے احیاء کی سوچ و فکر رکھتا ہے۔ اللہ کرے کہ علمائے کرام خانقاہی نظام کو شرعی طریقے سے دوبارہ بحال کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ ہم نے انتہا پسند جماعتیں اور گرہ بنا کر تفرقہ بازی شروع کر دی بھائی بھائی کا گلہ کاٹنے لگا جس کے نتیجے میں آج امت مسلمہ تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے جہاں کئی مسلمان آباد ہیں اس انتہا پسندی گروہ بندی کی وجہ سے خود ہی ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں اور قتل عام جاری ہے۔اسلام تو امن سکون اور محبت و اخلاص کا دین ہے ہم نے اس کا کیا حال بنا دیا۔ میں اولیاء اللہ سے درواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی باطنی حکمرانی روحانی سلسلہ میں امت کی بہتری کیلئے منظر عام پر آئیں۔ دین اسلام اور امت کی بھلائی کے لئے اپنا وہ کردار ادا کریں جو برصغیر میں اولیاء اللہ … کرتے رہے ہیں تمام مکتب فکر کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ خانقاہی نظام کو بحال کرنے میں پھر سے اپنا کردار ادا کریں تاکہ مسلم معاشرہ ایک بار پھر امن سکون، محبت و بھائی چارے کی طرف لوٹ سکے۔ بدعات اور مشرکانہ عقائد کی ہم نفی کرتے ہیں لیکن ان کمزوریوں کی آڑ میں مکمل طور پر خانقاہی نظام کو ہی خیرآباد کہہ دیتا امت مسلمہ کے لئے کسی بھی طور پر درست نہیں۔ ایک بدبخت مذہبی انتہا پسند گروہ جس نے خانقاہوںکو بھی نہیں بخشا۔ خانقاہوں میں بھی دھماکے کئے گئے۔ خانقاہوں میں دھماکے کرنے کے بجائے کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنے میں دعوت و تلیغ کا راستہ اختیار کریں۔ محبت سکون اور امن کے ان مراکز کے ساتھ اور اولیاء کے ساتھ جڑ جائیں اس میں ہماری ہمارے وطن کی اور عالم اسلام دین اسلام کی بہتری اور سربلندی ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کی خدمت دعوت و تبلیغ سے ہی ممکن ہے نہ کہ مذہبی انتہا پسندی ہے۔