برصغیر پاک و ہند میں ایک رواج رہا ہے جو کئی چھوٹے شہروں اور بڑے شہروں مین آج تک موجود ہے ، گلی ، محلے کے بزرگ جنکی سیاسی معلومات کا محور ٹی وی ٹاک شوز ( جو اچھے خاصی سوجھ بوجھ رکھنے والے کے خیالات کو منتشر ہی نہیں پراگندہ کردیتے ہیں ) اور اخبارات ہوتے ہیں ، اور گلی یا کسی گھر کے باہر چبوترے پر شام کو بزرگ جمع ہوجاتے ہیں اور بین الاقوامی و ملکی سیاست پر بحث اس نوعیت کی کرتے ہیں کہ ان میں سے ہر شخص کسی اعلی قیادت کے پاس سے اٹھ کر ابھی آرہا ہے ۔ جسطرح الیکٹرانک میڈیا پر کچھ اینکرز اپنی بقراطانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں سیاسی میدان میں تمام ہی فیصلے ان سے پوچھ کر کئے جارہے ہیں ۔ ہمارے محلے میں بھی اس طرح کا ایک چبوترہ موجود ہے جہاں محلے کے تمام بقراط جمع ہوکر ملک کی تقدیر کا فیصلہ کررہے ہوتے ہیں ، یہ اور بات ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز اور اخبارات گمراہ کن خبروںکے علاوہ انکی عمر کا ایک تجربہ بھی ہوتا ہے اس لئے ان روزانہ کی بنیاد پر کارنرز میٹنگ کرنے والوں کی بات اور تجزیہ میں دم بھی ہوتا ہے ،ہمارے محلے میں جو صاحب سب سے زیادہ سیاسی ہیں وہ اگر دوکان پر جائیں یا بس میں کسی نہ کسی طرح سیاسی بات اور حالت حاضرہ پر بات کرنے کا کوئی ذریعہ نکال ہی لیتے ہیں ۔ ہمارے اس بزرگ کو اس بناء پر ’’چاچا سیاست ‘‘کے نام سے پکارہ جاتا ہے ۔ گزشتہ انتخابا ت میںموجودہ حکومتی سیاسی جماعت سے بے شمار امیدیں لئے وہ بھی ہر جگہ پاکستان کے تابناک مستقبل کی باتیں اسی نوعیت کی کیا کرتے تھے جسطرح تحریک انصاف کے مراد سعید کیا کرتے تھے کہ ’’ عمران خان وزیر اعظم کے بنتے ہی دوسرے دن صبح ملک کا لوٹا ہوا اربوں روپیہ واپس ملک میٰںآجائے گا ، تمام بے روزگاروں کو اسی روز ملازمت دے دی جائے گی وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ خیر سے تحریک انصاف کی حکومت آئی تو چونکہ نیا پاکستان تھا اسلئے چاچا سیاست روزانہ نہاکر ، صاف کپڑے زیب تن کرکے محلے کے چبوترے پر سینا تان کر بیٹھتے تھے اور ان لوگوںکو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جو انتخابات سے قبل چاچا سیاست سے بحث کے دوران تحریک انصاف کے خلاف بات کیا کرتے تھے ۔ گزشتہ دن انہیں میںنے دیکھا کہ بہت ہی رنجیدہ چہرہ لئے ، کچھ میلے سے کپڑے زیب تن کئے سڑک پر جارہے تھے ہم نے اسلام علیکم کہہ کر اپنا تعارف کرایا ان سے پوچھا کہ انکی طبیعت تو ناساز نہیں ، بہت افسردگی سے گویا ہوئے ہماری طبیعت تو پاکستان کی طبیعت سے ملتی ہے ، اسوقت ملک کی نبض اچھے انداز میں نہیں چل رہی ہم نے کہا کہ مایوسی گناہ ہے ، چاچا سیاست نے کہا ملک کی حفاظت تو اللہ تعالی کرے گا اسے دشمنوںکی نظر نہیں لگ سکتی مگر یہ ہمارے سیاست دان کیوں عوام کی جانوں کے پیچھے پڑے ہیں انہیں معصوم عوام کا ذرا بھی خیال نہیں، عوام کو مایوس کرنے کا انہوں نے ٹھیکہ لیا ہوا ہے ، ہم نے چاچا سیاست دان کو قریبی ریسٹورانٹ میںچائے کی دعوت دی کہ انکا غصہ ٹھنڈا کیا جائے ، چائے پیتے ہوئے چاچا سیاست کہنے لگے کہ ’ یار حد ہوگئی یہ ٹھیک ہے کہ ملکی معشیت اس قابل نہیں کہ بغیر قرضوںکے چل سکے یہ قصہ آج کا نہیں تو بلند و باگ اور جھوٹے وعدے اوربھڑکیں کس بات کی ؟؟ یہ بھی ٹھیک ہے کہ انتخابات میںایسے وعدے ہی کرکے پاکستان کے عوام کے گزشتہ ستر سالوں سے تمام ہی سیاست دان بے وقوف بنارہے ہیں مگر افسوسنا ک بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے اپنے ہی وزیر اعظم پر الزام عائد کردیا کہ میں نے IMFسے قرضہ نہ لینے کی بات نہیں کی تھی عمران خان کی ہوگی۔ وزیر خزانہ کی یہ بات بہرحال ٹھیک تھی کہ وزیر اطلاعات کے اس بیان کی انہوںنے نفی کی ہے کسی دوست ملک نے کوئی کڑی شرط نہیں رکھی ۔چونکہ انہیں وزیر اطلاعات نے بیرونی دورے کے بعد سب سے زیادہ شور مچایا تھا کہ ہمیں تیل ، موجودہ معاشی صورتحال کو سہارا دینے کیلئے اربوں ڈالرز آنے والے ہیںجبکہ جن ممالک سے بات ہوئی انکی جانب سے کوئی لفظ سنائی نہیں دیا ۔ ہم نے چاچا سیاست کو سمجھایا کہ وہ دھیرج رکھیں، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھیں پاکستان میں سیاست کرنے کیلئے اس طرح کی باتیں ضروری ہیں۔
دو روزقبل ہونے والے ضمنی انتخابات میں یہ کسطرح کے نتائج آئے ہیں ؟؟ اسکی وجہ آپکا تجزیہ کیا کہتا ہے کہ ؟؟کیا یہ بے ایمانی سابقہ حکومت کی تعینات بیورو کریسی نے کرائی کہ یہ حکومت کو ہوتے ہوئے حکومت وقت کی چند نشستوں پر حزب اختلاف براجمان ہوگئی اور کثیر ووٹوں سے بھی ؟ یا یہ جیت میاں نواز شریف کی معروف بیانیہ ہے جسکی سزا وہ بھگت رہے ہیں اورنہ جانے کب تک بھگتنا ہے ؟؟میاں نواز شریف کے نام پر چاچا سیاست بھڑک گئے کہنے لگے ارے چھوڑو میاں کا بیانیہ ، ؟ بیانیہ کا مطلب ہے بولنا وہاں تو خاموشی ہے۔ چائے کی پیالی میں موجود آخری چسکی لیتے ہوئے چاچا کہنے لگے ضمنی انتخابات کے حیرت انگیز نتائج کی ذمہ دار تحریک انصاف کے بلند و باگ دعوے ، سو دن ، پھر چھ ماہ اور پانچ سال کی مہلت کی طلب ۔ حکومتی جماعت میں واضح دھڑے بندیا ں ہیں کسی بیانیہ کی پذیرائی نہیں ۔ ہم چاچا سیاست کی تجربہ کاری کے مرید ہوگئے ۔