لاہور(خصوصی رپورٹر+ اپنے نامہ نگار سے) احتساب عدالت کے جج نجم الحسن نے آشیانہ ہائوسنگ سکینڈل میں شہباز شریف کو مزید 14 روز کے جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا ہے۔ نیب حکام نے شہباز شریف کو سخت سکیورٹی حصار میں بلٹ پروف گاڑی میں احتساب عدالت میں پیش کیا، نیب پراسیکیوٹر نے شہباز شریف کے مزید 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ تفتیش میں شیخ علائو الدین کو شامل کرلیا گیا ہے۔ جج احتساب عدالت نے استفسار کیا کہ 'ان سب پر تو الزام ہے جنہیں آپ شامل تفتیش کر رہے ہیں، شہباز شریف کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'جس کا ٹھیکہ منسوخ کیا گیا، اس کو متعدد مرتبہ طلب کرچکے ہیں۔ شہباز شریف کے وکلا نے کہا کہ نیب وکلا نے جتنے بھی دلائل دیئے وہ پرانے ہیں اور جن دلائل کی روشنی میں ریمانڈ مانگا جا رہا ہے زیر سماعت ریفرنس میں وہ تمام باتیں درج ہیں۔ 10 مہینے ہوگئے ہیں، تفتیش کرتے ہوئے، نیب مختلف افراد کا ریمانڈ کرچکا ہے، لیکن کوئی ثبوت نہیں ملا۔ نیب وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آشیانہ سکیم کا ٹھیکہ شہباز شریف کے دستخط سے شروع ہوا۔ جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کے دستخط کہیں بھی نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہبازشریف تحقیقات میں تعاون نہیں کررہے اور جو ان کو سوالات دیئے گئے ان کا تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ شہباز شریف نے جج احتساب عدالت کے سامنے بیان میں کہا کہ مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن ثابت نہیں ہوسکی، میں تفتیش کے لیے نیب افسروں کو خود بلاتا ہوں، گزشتہ تین روز سے میرے پاس تفتیش کیلئے کوئی افسر نہیں آیا۔ دو مہینے کی کارکردگی نے پی ٹی آئی حکومت کا پول کھول دیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج کو مخاطب کرکے شہباز شریف نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں بڑا سخت گیر ہوں تو کیسے ممکن تھا کہ نیلامی ہوئی؟۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا، مجھے پہلی بار نیب نے بلایا تو کہا کہ آپ جنرل کیانی کے بھائی کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے، جس پر میں نے کہا کہ میں نے پھر ان کے خلاف معاملہ اینٹی کرپشن میں کیوں بھیجا۔ شہباز شریف کے مطابق 2008ء میں کامران کیانی نے کہا کہ ٹھیکہ مجھے دیں تو میں نے اس کی شکایت سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے اس وقت اتنا بڑا ٹھیکہ نہیں دیا، مجھ پر ٹھیکہ دیکر جنرل اشفاق کیانی کو خوش کرنے کا الزام لگایا گیا، حالانکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنی جانب سے زبانی احکامات دینے کے نیب کی بیان کی تصدیق کرتا ہوں۔ میں نے تو کنٹریکٹ میں پیسے بچائے اور اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ’’پنجاب سپیڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جہاں سورج کی روشنی تک نہیں جاتی، میں وہاں 24 گھنٹے بند ہوں۔ میں پاکستانی ہوں، مجھے اس پر فخر ہے، لیکن میں بھی انسان ہوں اور میں نے اس پنجاب کی بڑی خدمت کی ہے۔ احتساب عدالت کے باہر مسلم لیگ (ن )کے رہنماؤں اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی‘ جنہوں نے نعرے بازی کی۔ احتساب عدالت کے اردگرد کئی فرلانگ تک کرفیو کا سماں تھا پولیس کی بھاری نفری نے ایم اے او کالج، سول سیکرٹریٹ، بابا گراؤنڈ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کرکے ٹریفک معطل کر دی تھی اور مسلم لیگی کارکنوں کو احتساب عدالت جانے سے روکنے کیلئے سخت رویہ اپنایا۔ مسلم لیگی کارکن صبح سویرے آٹھ بجے سے آنا شروع ہوئے اور راستے بند پاکر حکومت مخالف نعرے بازی کرتے رہے۔ تاہم میاں حمزہ شہباز شریف، سلمان شہباز، مریم اورنگزیب ، پرویز ملک، خواجہ احمد حسان، خوجہ عمران نذیر، سید توصیف شاہ، عامر خان، وحید عالم خان، چودھری باقر حسین، مہر شبیر میرو، خواجہ سعد فرخ، سردار نسیم سمیت متعدد افراد احتساب عدالت تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اس موقع پر پولیس نے پرامن کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے پرامن مسلم لیگیوں کو احتساب عدالت تک پہنچنے پر رکاوٹیں کھڑی کئے جانے کی مذمت کی۔ پیشی کے وقت سکیورٹی انتہائی سخت تھی، 6 اکتوبر کی سماعت کے برعکس رینجرز اہلکار، اے آر ایف، ایلیٹ و دیگر فورسز کے اہلکار تین گنا زیادہ تھے۔