کہنے کو تو یہ بھارتی صحافی کا معید یوسف سے انٹرویو تھا مگر اس میں انٹرویو جیسی بات نہیں تھی۔ انٹرویو نگار کے رویے سے اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش جھلک رہی تھی جس سے یہ انٹرویو "روایتیـ" ٹاک شو بن گیا۔ ایسے ٹاک شو پاکستان بھارت کے نیوز چینلزپربرپا ہوتے ہیں۔ اپنی کہتے چلے جائو، کوئی سُنے نہ سُنے۔ اینکر سمیت تین چار شریک سُخن بیک وقت بولتے بلکہ گرجنے لگتے ہیں۔ کبھی بات دشنام طرازی سے بڑھ ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔شکر ہے ابھی تک گولی چلنے کی نوبت نہیں آئی۔جذبات کی رو میں بہہ جانیوالوں سے یہ بھی بعید نہیں۔ پریس کانفرنسیں ذرا دیکھیں، کانفرنس کرنیوالے کی اِدھر بات مکمل نہیں ہوتی اُدھر ایک ہی وقت میںچھ سات کبھی اس بھی زیادہ نمائندے یا رپورٹر اپنا اپنا سوال داغنے کے لیے کمان کھینچ چکے ہوتے ہیں۔ پذیرائی زیادہ زور لگا کر سوال کرنے والے کو ملتی ہے۔کبھی لگتا ہے یہ فاضل اہل قلم وہنرڈسپلن سے عاری ہیں مگر یہ درست نہیں۔ ڈی جی ، آئی ایس پی آر کی کانفرنسوں میں تو سناٹا چھایا ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنی باری پر سوال کرتا ہے۔
کرن تھاپر نے قومی سلامتی کے معاون خصوصی معید یوسف سے بھارت میں بیٹھے بیٹھے انٹرویو کیا تھا،معید اسلام آباد میں تھے۔تھاپر سینئر صحافی ہیں‘ سیکڑوں ہزاروں انٹرویوز کر چکے ہیں۔ عرصہ بعد پاکستان کی کسی اعلیٰ سرکاری شخصیت کا انٹرویو کرنا تھا جو انکے چینل کیلئے اعزاز تھا۔ انہوں نے معیدکو گھیرنے کی پوری تیاری کی تھی جو بھارت میں پاکستان کے بغض سے بھرے لوگوں سے واہ واہ کرانے کیلئے ضروری تھا۔وہ لاجواب کرنے پر تلے ہوئے تھے۔جس سے سوال کیا جاتا ہے یہ اس کا امتحان ہوتا ہے بہت سے سوال اچانک سامنے آتے ہیں۔
معید یوسف نے ہر بات ٹھوس اندازمیں کی، ہر سوال کا مدلل جواب دیا۔ یہ انٹرویو پورے سوا گھنٹے کا ہے۔ انگریزی انٹرویو کے دوران معید یوسف نے وقفے سے دو فقرے اُردو، فارسی کے بولے، کشمیری بھارت سے نفرت کرتے ہیں۔ دیر آید درست آید۔ انٹرویو نگار کا کام سوال کر کے جواب سُننا اور جواب مکمل ہونے کے بعد اگلا یا ضمنی سوال کرنا ہوتا ہے،یہ کامن سنس یا عام فہم ہے مگر کرن تھاپر سوال کرنے کے بعد جواب کے دوران بے چین رہتے بار بار ٹوکتے بات مکمل نہ ہونے دیتے۔ اس انٹرویو کو ناپ تول کر دیکھیں تو آدھے وقت سے زیادہ تھاپر کی سخنوری بنتی ہے۔ تھاپر کا پہلا سوال جو انکے کان میں کسی نے ڈالا یا دماغ میں خود سے آیا وہ کشمیر کے خصوصی درجے کے خاتمے پر پاکستان کے اعتراض بارے تھا، تھاپر کی نظر میں ایسا ہی پاکستان گلگت میں بھی کر رہا ہے لہٰذا اعتراض کا جواز نہیں۔ اس سوال کو وہ تیس مار خانی اور طرم خانی سمجھ رہے تھے۔اسکے جواب پر تھاپر لاجواب ہو گئے۔ اس مکالمے، ٹاک شو ایسے انٹرویو میں معید یوسف نے پاکستان میں دہشتگردی، ممبئی پٹھان کوٹ پلوامہ حملوں، کشمیر میں نسل کشی، افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشتگردی ، بھارت کی رعونت سمیت ہر موضوع پر دوٹوک جواب دیا۔
ہماری اپوزیشن ایسے معاملات میں پلٹ کر جھپٹنے کا ملکہ و مہارت رکھتی اور موقع کی تلاش میں رہتی ہے۔ سو کیڑے نکالتی ہے مگر اس انٹرویو کی حمایت کی گئی نہ مخالفت میں کوئی بیان دیا گیا۔ یہ نہیں کہ غیرجانبداری مطمحِ نظر تھا۔ اول تو حمایت کرنی چاہئے تھی خاموشی اس لئے رہی کہ انکے پاس انٹرویو دیکھنے یا اگلے روز پڑھنے کا وقت نہیں تھا۔ ساری تیاری اور توجہ گوجرانوالہ کے جلسہ پر تھی۔
حکومت نے جناح سٹیڈیم میں ٹال مٹول کے بعد جلسے کی اجازت دی۔ یقیناً سٹیڈیم کا نام قائداعظم محمد علی جناح کے نام پر رکھا گیا ہے۔ 16 اکتوبر کو جناح صاحب کے معتمد ساتھی جو قائد کے بعد دوسری بڑی طاقتور سیاسی شخصیت لیاقت علی خان تھے، ان کی برسی تھی۔ اس موقع پر سٹیڈیم کی طرف باجوں گاجوں کے ساتھ جلوس رواں دواں رہے۔ ڈھول کی تھاپ پر منچلے رقص کناں چینلز پر دکھائے جاتے رہے۔اپنے سیاسی آباء کو اس سے زیادہ "خراجِ تحسین و خراج عقیدت" کیا ہو سکتا ہے۔
جلسے کی کامیابی کے امکانات اس لئے بھی بڑھ گئے تھے کہ حکومت نے جس انداز میں جلسے کے حوالے سے بیانات دیئے اور جس طرح میڈیا نے جلسے کو اچھالا‘ وہ ایک بین الاقوامی ایشو بن گیا تھا۔ 11 جماعتوں پرمشتمل پارٹیوں کے احتجاج اور اجتماع کا مقصد تحریکِ انصاف حکومت کا خاتمہ اور کم از کم عمران خان سے بطور وزیراعظم نجات ہے۔ کامیاب جلسے کی صورت میں کارکنوںکو اپنے مقصدکے حصول کی نوید سنائی گئی تھی۔ آج 17 اکتوبر کا سورج کارکنوں کیلئے عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے چھٹکارا لیے نکلنا تھا ، ایسا ہوا؟
اِدھر جلسے میں جو نعرے حکومت اور عمران خان کے بارے میں لگائے گئے اور جو کچھ بھی کہا گیا اُسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔وہی کچھ کرکے لندن میں میاں نواز کے محل کا گھیرائو کرتے ہوئے پی ٹی آئی اے کے کارکنوں نے حساب چُکتا کر دیا۔ عمران خان کا دھرناکیلئے مارچ طاہر القادری کے ساتھ دینے سے بڑا بن گیا تھا۔ عمران انتخابات دھاندلی کا حساب طاہرالقادری 14جاں بحق اور سو زخمیوں کا انصاف مانگنے نکلے تھے۔ لاہور سے جلوس اسلام آباد جا کر لنکا ڈھاتا نظر آ رہا تھا اور اسے فوج کی ہلہ شیری بھی تھی۔ کیا اُس جلوس اور دھرنے نے نواز شریف کی حکومت گرا لی؟ 30 اکتوبر 2011 ء عمران خان نے مینار پاکستان گرائونڈ کو بھر دیا تھا ، وہیں سے انکی گُڈی چڑھی، کیا اتنے بڑے جلوس نے زرداری حکومت مرکز اور شہباز حکومت پنجاب میں اُلٹا دی تھی، بڑے جلسوں اور اجتماعات سے حکومتیں گرتی ہوتیں تو ضیاء حکومت بینظیر بھٹو کی 1986ء میں لاہور لینڈنگ سے گر جاتی ، ایسا اجتماع پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا، اس اجتماع کے زور پر محترمہ ضیاء مارشل کو ڈھا دیتیں۔ ایک بے سود لانگ مارچ نواز شریف صاحب نے زرداری حکومت کے خاتمے کیلئے بھی کیا تھا۔
احتجاج بہرحال اپوزیشن کا حق ہے اور یہ حق وہ مقدمات سے نجات کیلئے استعمال کرتی ہے تو بھی جمہوریت کا "حُسن"ہے۔بہرحال ایسے حکومتیں نہیں گِرتیں۔ذرا استعفے گرائیں تو بہت کچھ گر سکتا ہے۔
معید، بھارتی صحافی مکالمہ: گوجرانوالہ جلسہ
Oct 17, 2020