اپوزیشن کی تحریک اور حکومت کی ذمہ داریاں

Oct 17, 2020

رحمت خان وردگ

میں 50سال سے ایک ادنٰی کارکن کے طور پر تحریک استقلال میں شامل ہوا اور اب تک ایک ہی پارٹی میں ہوں اور میں پاکستان کی 50سالہ سیاسی تاریخ کا حصہ رہا ہوں اور اپوزیشن کی 1977ء کی تحریک میں خود شامل تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 1977ء کی اپوزیشن کی تحریک نے جب زور پکڑا تو بھٹو صاحب کی حکومت نے مجبور ہوکر بڑے شہروں کراچی‘ لاہور وغیرہ میں ٹکڑوں ٹکڑوں میں مارشل لاء نافذ کرکے فوج کو مظاہرین کے خلاف سخت ترین کارروائیوں کا حکم دیا۔ اسی تحریک میں ہم کراچی میں مولانا زکریا کی قیادت میں ریلی نکال رہے تھے کہ فوج نے سڑک پر تین لائنیں لگائیں اور اسپیکر پر اعلان ہوا کہ جس نے بھی یہ لائن کراسکی تو اس پر گولی چلادی جائیگی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عوام نے مولانا زکر یا کی قیادت میں نعرہ تکبیر بلند کیا اور پہلی لائن کراس کرلی تو دوبارہ اعلان ہوا کہ اگر دوسری لائن کراسکی تو گولی چلادی جائیگی لیکن لوگوں کا جوش و ولولہ ایسا تھا کہ انہوں نے قائدین کے ساتھ دوبارہ کلمہ شہادت بلند کرکے دوسری لائن بھی کراس کرلی تو پھر مزید سخت تنبیہہ کا اعلان کرکے فائنل وارننگ دی گئی لیکن اب بار بھی لوگوں نے اپنے قائدین کے شانہ بشانہ کلمہ شہادت پڑھ کر لائن کراس کرلی تو فوج کے افسران نے وہاں سے چلے جانا ہی بہتر سمجھا اور پھر مظاہرین کے سامنے مزید کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی گئی بلکہ پھر آرمی چیف نے ٹکڑوں ٹکڑوں میں مارشل لاء لگانے کا فیصلہ ہی واپس لے لیا۔ اگر عوام مشتعل ہوں تو پھر اس سے بہتر حکمت عملی نہ ہوسکتی کہ وہاں ٹکراؤ سے ہر صورت بچا جائے۔
گزشتہ روز تحریک انصاف نے لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ کیا جس کی فوٹیج میں واضح نظر آرہا ہے کہ پنڈال خالی تھا حالانکہ اکیلا شیخ رشید پنڈی میں اس سے بڑا جلسہ کرسکتا ہے جس کی پارلیمنٹ میں صرف ایک سیٹ ہے لیکن ملک گیر نمائندگی رکھنے والی جماعت کی اس قدر عدم مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی کا طوفان ، مہنگائی اور بے روزگاری میں زبردست اضافہ ہے جس کے باعث عوام حکمران جماعت سے مایوس ہوچکے ہیں اور اب مزید ان کا کوئی دلاسہ سننے کو تیار نہیں بلکہ وزیراعظم صاحب جب ٹیلی ویژن پر کوئی اہم اعلان کرنے کی تاریخ دیتے ہیں تو لوگ ڈر ہی جاتے ہیں کہ اﷲ خیر کرے‘ اب مزید کیا نیا اضافی بوجھ ہوگا جو عوام پر لادنے کی تیاری ہے؟ عوام کو بہت زیادہ توقعات تھیں اور توقعات کے برعکس مہنگائی اور بے روزگاری میں طوفانی رفتار سے اضافہ ہوا ہے جس کے باعث حکمراں جماعت کی مقبولیت شدید متاثر ہوئی ہے اوربقول شیخ رشید وزیراعظم صاحب کو چند انتہائی نااہل اور نکمے وزراء نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور ’’سب اچھا ہے‘‘ کی جھوٹی رپورٹیں دی جاتی ہیں ۔ وزیراعظم صاحب ایسے وزراء کے گھیرے میں ہیں جنہوں نے آٹے‘ چینی کی قیمتوں میں اضافے سے ’’مال بنایا‘‘ ہے۔ حکمراں جماعت کے دعوے کے مطابق ان کی مقبولیت 2018ء کے الیکشن کی طرح برقرار ہے تو پھر ملک کیلئے اس سے بہتر فیصلہ میرے خیال میں کوئی نہیں ہوسکتا کہ آپ نئے انتخابات کا اعلان کردیں اور آپ مزید زیادہ اکثریت سے منتخب ہوکر ایسی مضبوط حکومت بنالیں جس میں اتحادیوں کی بھی ضرورت نہ رہے اور آپ اپنی مرضی کی قانون سازی بھی کرسکیں۔اپوزیشن نے گوجرانوالہ میں جلسے کا اعلان کر رکھا تھا تو حکومت کے چند ناعاقبت اندیش لوگ اسی روز‘ اسی شہر میں جلسہ کرنے پر بضد تھے جس سے یقینی طور پر ٹکڑاؤ کی صورتحال پیدا ہونا تھی۔ جلسے کی بہرحال اجازت دیدی گئی حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن کو تحریک میں کھلی چھوٹ دے اور اگر انہیں سیاسی طور پر اپنی پاور شو کرنے کی ضرورت ہے تو جس دن اپوزیشن کا لاہور میں جلسہ ہو‘ اسی دن تحریک انصاف کراچی میں اپنا جلسہ کرے اور جس دن اپوزیشن کا جلسہ کراچی میں ہو‘ اس دن تحریک انصاف اپنا جلسہ کوئٹہ میں کرلے۔ جب بھی مارشل لاء نافذ ہوا ہے ہمیشہ سیاستدانوں نے ہی ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ ملک کو اندرونی خلفشار سے بچانے کیلئے اداروں کو آگے آنا پڑا۔ میاں نوازشریف جب جج بحالی تحریک میں لاہور سے نکل رہے تھے تو اس تحریک کی کامیابی کے متعلق متضاد باتیں ہورہی تھیں لیکن جب وہ تمام رکاوٹیں عبور کرکے گوجرانوالہ پہنچے تو آرمی چیف نے فون کرکے انہیں مزید آگے جانے سے روکتے ہوئے انہیں مطالبات کی منظوری کی خوشخبری دی۔ حکومت کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے اور ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے انتشار پیدا ہو اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی اختیار کرے کہ ملک کو نقصان نہ ہو۔ میڈیا بھی سخت سنسرشپ اور پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتا نظر آتا ہے اور میڈیا سے منسلک افراد اس وقت بدترین معاشی حالات کا شکار ہیں۔ میڈیا کو کوریج کی مکمل آزادی ہونی چاہئے اور کسی قسم کی سختیاں جمہوریت اور آزادی اظہار پر قدغن ہیں۔ میڈیا ہاؤسز کے بقایاجات فوری ادا کئے جائیں تاکہ میڈیا سے منسلک افراد کی معاشی مشکلات میں واضح کمی ہوسکے۔اگرخداخواستہ حکومت ٹکراؤ کی جانب جاتی ہے اور ملک کو نقصان پہنچتا ہے تو پھر نئے الیکشن پر اس نقصان سے کم خرچ ہوگا جو اپوزیشن کی تحریک سے پہنچ سکتا ہے اسی لئے پھر نیا الیکشن ہی بہتر ہوگا اور حکمراں زیادہ اکثریت لیکر مزید مستحکم حکومت بناسکتے ہیں یا پھر تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ قومی حکومت بناکر 3سال پوری یکسوئی سے صرف ملک کو موجودہ معاشی بحران‘ مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات دلانے کیلئے غیر جانبدار شخصیت کو وزیراعظم بناکر پارلیمنٹ میں نشستوں کی شرح کے مطابق وزارتیں تقسیم کرکے حکومت بنائے۔اسی طریقے سے ہی ملک معاشی اور دیگر بحرانوں سے بھی نکل سکتا ہے اور نظام بھی چلتا رہے گا اور اگر سیاستدانوں نے ماضی کی طرح ہٹ دھرمی کرکے افراتفری پیدا کی اور ملک کے نظام کو نقصان پہنچا تو پھر ادارے مجبور ہوں گے کہ ملک بچائیں اور خدانخواستہ پھر نظام کے خاتمے کی مکمل ذمہ داری سیاستدانوں پر ہی عائد ہوگی۔

مزیدخبریں