2 جنوری 1492ء غرناطہ کے باہر پہاڑیوں پہ کھڑا ابو عبداللہ محمد الثانی عشر، الحمراء کے محلات کو آخری دفعہ دیکھ رہا ہے – وہ شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیل کو شہر کی چابیاں دے چکا ہے – وہ ایک عرصہ اپنے باپ اور چچا کے خلاف اسی فرڈیننڈ کو مظبوط کرتا رہا ہے – خوشامدیوں اور قصیدہ سراؤں میں گرا وہ کبھی سوچ ہی نہیں سکا کہ وہ اپنی ہی حکومت اور غرناطہ کو کمزور کرتا ہوا گھٹنوں کے بل لے آیا ہے- فرڈیننڈ کی دوستی کے قصے مدح سراؤں سے سنتے اسے کب ادراک تھا کہ وہ اسی فرڈیننڈسے ایک دن غرناطہ سے بیدخلی کا خط موصول کرے گا۔ان ہی خیالات میں ڈوبا ہوا وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیا ہے ۔ ساتھ کھڑی ماں اسے وہ الفاظ کہہ رہی ہے جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں " اس کے لئے عورتوں کی طرح کیوں روتے ہو جس کا تم مرد بن کے دفاع نہ کر سکے"- یہ فقرات تو ہم سب کو یاد ہیں کوئی بتادے ایک فقرہ ایک جملہ جو غرناطہ کے آخری فرماں روا کے پورے دورِ حکومت میں دربار کے تخت کے سامنے اس کی شان میں ڈونگرے برساتاکسی قصیدہ سرا نے کہا ہو۔یہ سچ ہے کہ صرف حقیقت زندہ رہتی ہے اور خوشامدیوں کے ملے خطابات سب دم توڑ جاتے ہیں- میں جب بھی اس تاریخ پہ نظر دوڑاتا ہوں تو اکثر سوچتا ہوں کہ مدح سرائی کے جھرمٹ ،انسان سے آنکھیں اور دماغ سے درست سمت کے تعین کی قوت ہی چھین لیتے ہیں-اگر دورِ حاضر میں دیکھوں تو مجھے محترم نواز شریف کے کہے وہ الفاظ نہیں بھولتے جب وہ کہتے ہیں کہ قدم بڑھاؤ نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن جب قدم بڑھایا تو پیچھے کوئی نہ تھا۔ یہی سچ ہے موجودہ وزیر اعظم ، خان صاحب کی بات کروں تو ہر ایک چیز کا ذمہ دار انہیں دو سال پہلے دیا گیا پاکستان ہی یاد آتا ہے ۔ کاش قصیدہ سراؤں کے چنگل میں پھنسے وہ بھی سوچیں کہ آپ نے چند ماہ کا وعدہ کیا تھا ،لیکن وہ خوشامدی آپ کو اس سب کا تو خوب یاد کروائے ہوئے ہیں لیکن اپنے دو سو پچاس ارب سے صرفِ نظر کرنے پہ مجبور کر رہے ہیں اور کچھ آپ کو بھی یہی مانع ہے کہ چینی اور آٹا مافیا کے خلاف قدم اٹھایا تو آپ کی سرفرازی میں زمیں آسماں ملا دینے والا ساتھ چھوڑ جائے گا- ایسا ہی ایک دوست آپ چکلالہ ائر بیس سے کب کا خود اپنی حکومت میں جہاز سے بھیج چکے ہیں۔ آج اگر ٹماٹر دو سو روپے کلو – چینی سو روپے سے اوپر اور آٹے کا بیس کلو کا تھیلا پندرہ سو روپے تک جا پہنچا ہے تو کیا اس میں آپ کی نالائقی اور آپ کے گرد فوج موج کا کوئی کردار نہیں ہے کبھی یہ بھی سوچئے کہ کس نے آپ کی آنکھوں پہ تعریفوں کا وہ چشمہ چڑھایا ہوا ہے کہ آپ دیکھ ہی نہیں سکتے- مجھے اپنے گورے صاحب کا ایک فقرہ کبھی نہیں بھولتا کہ جب میں نے کسی کمی بیشی کا الزام کسی اور کو دینا چاہا تو اس نے کہا کہ جب انچارج خود ہو تو الزام بھی خود لینا سیکھو اپنی سربراہی میں ہوئے غلط کام سے یہ کہہ کے آپ پہلو تہی نہیں کر سکتے کہ آپ موجود نہیں تھے- یہ ایک بری گورنس کی نشانی ہے ۔ ماشاء اللہ آپ نے اپنے پیرو کاروں کا معیار بھی کچھ یوں اونچی سطح پہ مقرر کیا ہے کہ نہ اب ان مقاصدکا حصول آپ کے بس میںہے اور نہ ان خوابوں کی تعبیریں- آپ کے اس معیار نے قوم کو ضرور کئی حصوں میں تقسیم کردیا ہے- آج آپ کے مدح سرا یوتھیا اور باقی کوئی پٹواری یا جیالا ہے- جن کا کام کیچڑ اچھالنے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے- آپ کے یوتھیاز کا خیال ہے کہ وہ پڑھے لکھے زیادہ ہیں لیکن میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر تعلیم قصیدہ سرائی ہی سکھاتی ہے تو پھر درست ہے لیکن اگر علم و دانش سچ کہنے کی جراء ت پیدا کرتی ہے تو بشمول میرے آپ کاایک بھی حمایتی اس پہ پورا نہیں اترتا – میں بھی اگر جانے والوں کو برا کہتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ آپ بہت اچھے اور ایک عظیم قائد ہیں بلکہ وہ اس لئے ہے کہ مجھے ان تاریکیوں سے ڈر لگتا ہے کہ جن کی طرف واپسی ایک اندھیرے کے اسی سفر کا آغاز ہو گا جہاں پہ یہ رکا تھا- ورنہ آپ نے بھی باقی حاکموں کی طرح تسبیح ہاتھ میں پکڑ کے اس کے ہر ایک دانے کے ساتھ ایک ظلم کا ورد شروع کیا ہوا ہے – وہ کرپشن کے واقعات سے پردہ پوشی ہو یا اپنی حکومت کی طوالت میں کئے سمجھوتے کیونکہ آپ تو ملک سیدھا کرنے کے وعدے کے ساتھ آئے تھے لیکن اپنی حکمرانی کی مدت کو بقا بخشتے سمجھوتے پہ سمجھوتا کرتے گئے – ماشاء اللہ کیا بیاں ہو آپ کی گورنس کا کہ جس چیز کا آپ نوٹس لے لیتے ہیں وہی چیز عام انسان کی پہنچ سے باہر ہو جاتی ہے – بات پٹرول، بجلی ، گیس ،آٹے یا اس روٹی کی کروں جو سب کی ضرورت ہے – سنا ہے آج کل آپ نے مہنگائی کا نوٹس لے لیا ہے اور جب سے آپ نے نوٹس لیا ہے ایک ماں پانچ بچوں سمیت مہنگائی کی ماری دریا میں چھلانگ لگا چکی ہے- آپ کے دور حکومت کی بات ہو تو بھوکے کی آنکھوں سے روٹی غائب – بیمار کی دوائی غائب – سڑکوں کا امن غائب- پچپن روپے میں ہیلی کاپٹر کا سفر کروا دینے والا غائب – وزیر اعظم ہاؤس کی یونیورسٹی غائب- گورنر ہاؤس کی مسماری غائب- باتوں اور وعدوں سے عمل غائب اور تو اور تحریک انصاف کے منشور سے انصاف غائب۔ ایک دشنام طرازی تھی وہ اب بھی ہے نہیں تو وکلاء کنونشن سے کی گئے آپ کی تقریر آپ کے سامنے ہے- اس سب کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجھے تو اس ملک کے دانشوروں اور پڑھے لکھوں سے یہی کہنا ہے کہ سچ کہو، دنیا میں حق قائم رہتا ہے اور قصیدہ سرا دم توڑ جاتے ہیں۔ اگر آج کی تعلیم آپ کو قصیدہ سرائی ہی سکھاتی ہے تو یہ ادارے اور نظام تعلیم کا سلیبس ممنوع قرار دے دیں کیونکہ یہ زبوں حالی اور زوال کا سفر ہے – اونچائی چڑھتے وقت لگتا ہے لیکن اونچائی سے گرتے زمیں پہ پہنچتے کوئی وقت نہیں لگتاصاحب-ملک کے وزیر اعظم سے میری یہ گزارش ہے کہ وہ محلاتی قصیدہ سراؤں سے باہر نکلیں – تسبیح چھوڑیں کیونکہ فرائض کی ادائیگی کہ بعد اصل عبادت عوام کی خدمت ہے – تاریخ شاہد ہے کہ قیام کے وقت سجدوں میں گر جانے والا کبھی درست فیصلے اور راہنمائی نہیں کر سکتا-