PDM کااحتجاجی جلسہ نئی بحث کے در کھول کر اختتام کو پہنچا،حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن بندے اکٹھا کرنے میں ناکام رہی، PDM کاکامیاب جلسے کا دعویٰ ہے، موجودہ حکومت ، جب سے برسرِ اقتدار آئی ہے ، شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب اسے سکون کا سانس نصیب ہوا ہو۔ کچھ اپوزیشن نے ناک میں دم کر رکھا ہے توکچھ ’’کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کے مصداق، آئے دن کی غلطیاں بلکہ ’’بونگیاں‘‘ اور ’’بیڈ گورنس‘‘خود اُس کیلیے شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔ اسمبلی میں اکثریت نہ ہونے اور حلیفوں کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت ، نہ تو اب تک کوئی بڑا فیصلہ لینے میں کامیاب ہو سکی اور نہ ہی عوامی مفاد میں کوئی ڈھنگ کی قانون سازی ہی کر پائی،بلکہ آرڈیننس کا سہارا لے کر ’’ڈنگ ٹپانے‘‘ پر مجبور ہے۔PTI دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی کہ پر کٹے پرندے کو کھلا بھی چھوڑ دیں تو اس کے اُڑنے کا احتمال نہیں ہوتا،جبکہ طاقتور درندہ قید میں بھی خطرناک ہو تا ہے۔معلق پارلیمنٹ کا فیصلہ اسی تناظر میں تھاکہ عمران جیسا اکھڑ مزاج سادہ اکثریت میں بھی خطرناک ہو سکتا تھا،اس بات کا اعتراف ملک کے تین بار وزیر اعظم اوردوبار اپوزیشن لیڈر بننے والے میاں نواز شریف نے تو خود کیا کہ ’’انتخاب سے پہلے طے کر لیا جاتا ہے کہ کِسے اقتدار دلانا ہے‘‘، ماضی کا یہی تجربہ ہے جس کی بنیاد پر عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کا سلیکٹی گردانا گیا۔گذشتہ دس سالوں میں ملک کے ساتھ جو کھلواڑ کھیلا گیا اس نے دونوں بڑی پارٹیوں کی ساکھ کو متاثر کیا۔ ’پاناما پیپرز کیس‘ اور’ فیک اکاؤنٹس کیس‘ بھی گذشتہ دس سال کی نشانی ہیں۔ اپوزیشن نے متعدد بار حکومت گرانے کی کوشش کی مگراپنا دامن داغدار ہونے کے سبب ،جب جب اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا چاہا،اسے منہ کی کھانا پڑ ی، حکومت کی بار بار کی ناکامیوں کے باوجود اپوزیشن عوام کو باہر نکالنے میں ناکام رہی ہے،اندھی تقلید کے باوجود عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ PDM کی احتجاجی ترجیحات وہ ہرگز نہیں جو بتائی جا رہی ہیں، عوام یہ بھی سمجھ چکے ہیں کہ انہیں عوام کا دردبالکل نہیں ، کہ یہی رجیم جب اقتدار میں تھی تو کونسی دودھ اورشہد کی نہریں بہ رہی تھیں، مہنگائی کب نہیں تھی؟یہی عوام دونوںجماعتوں کے ادوار میں ،مہنگائی کے ہاتھوں اتنی ہی لاچار اور مجبور تھے جتنی اب ہے۔ اس لیے وہ اب مزید بیواقوف بننے کو تیار نہیں،آخری اُمید مولانا ہیں کہ مولانا کے پاس مدرسوں کے بچوں کی صورت میں ، افرادی قوت ہے،PDMکی تشکیل پر نواب زادہ نصراللہ خان یاد آئے کہ وہ صحیح جمہوری سوچ کے حامل لیڈرتھے،جنہوں نے ہمیشہ مارشل لاء کے خلاف جمہوریت کی بحالی کی جنگ لڑی اور اب جمہوریت کے خلاف جمہوریت کا ناٹک کھیلا جا رہا ہے، PDMکی سربراہی پر پارٹیوں کے اختلافات نے اخلاص کی قلعی کھول دی کہ جمہوریت بحال کروانے والوں میں کتنی جمہوریت ہے؟دوسرا 11اکتوبر کو کوئٹہ سے احتجاجی تحریک کا آغا ز ہونا تھا، ’’کیا ہوا تیرا وعدہ؟بظاہر جلسہ ملتوی کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نظر نہیں آئی ،18تاریخ کو جلسہ کے انعقاد پرپیپلز پارٹی ، سانحہ کارساز کا بہانہ کر کے پہلو بچا گئی،ابھی ایک روز پہلے جلسے کی اجازت نہ ملنے کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا رہا۔ تاثر یہ دیا گیا کہ حکومت،PDMکے کسی متوقع بڑے احتجاجی جلسے کے خوف میں مبتلا ہے ،یہ بالکل وہی کیفیت ہے ، جیسے کوئی کمزور لڑنے سے پہلے سینہ تا ن کر ، شور مچائے کہ ’’اوے مینوں پھڑ لو نہیں تے میںلگا جے ایہداسر پاڑن‘‘، PDM بھی یہی کہنا چاہتی ہے ،PDM پورا زور لگا کر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا عزم رکھتی ہے، کہ اسے مارچ میں حکومت کا مستحکم ہونا گوارا نہیں، یہ ان کے لیے کرپشن سے بچنے سے کہیں زیادہ بقا کا مسئلہ ہے، اس لیے PDMچاہے گی کہ حالات کو کسی ایسی نہج پر لے جایا جائے جہاں حکومت کو ئی بڑی غلطی کر بیٹھے اور انہیں انتشار کا موقع مل جائے، حکومت کو بھی کسی بڑی کاروائی سے پہلے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ بعض غلطیوں کی تلافی نہیں ہو تی ۔۔!
PDMکی احتجاجی تحریک کا آغاز ہو چکا۔۔!
Oct 17, 2020