پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی سرحد پر ایک ایسا دشمن بیٹھا ہواہے جو مکار بھی ہے اور عیا ر بھی۔ جس نے روز اوّل سے اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور جو ابتداء ہی سے اس کے خلاف ہر قسم کے حربے آزماتا رہتا ہے۔ اس کی ساری جنگی تیاری ہمیشہ سے ہی پاکستان کے خلاف رہی ہے اور یہ جنگ میدان حرب سے لے کر میدان معیشت تک ہر سمت پھیلی ہوئی ہے۔ جنگی تیاری کے ضمن میں یہ آئے روز نت نئے ہتھیار بناتا رہتا ہے اسی دشمنی کے سلسلے میں اُس نے اپنا ایٹمی پروگرام اپنی آزادی کے بعد جلد ہی شروع کیا اور یہ کہہ کر کیا کہ اسے توانائی کے حصول کے لیے شروع کیا جا رہاہے۔ بھارت نے اسی آڑ میں اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھا یا اور مئی 1974 میں’’ سمائلنگ بدھا‘‘ کے نام سے ایٹمی دھماکہ کیا اور مسلسل اس پروگرام کو آگے بڑھاتا رہاجو یقینا پاکستان کے لیے ایک بڑی تشویش کی بات تھی اور اسی لیے پاکستان کو بھی اس طرف توجہ دینا پڑی اگر چہ پہلے بھی ایٹمی پروگرام پر توانائی کے حصول کے لیے کام ہو رہاتھا تاہم 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی اس پروگرام پراز سر نو کام شروع کیا۔اس دوران ڈاکٹر قدیر خان جرمنی اور بلجیئم سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد نیدر لینڈ زکی ایک نیوکلیئر فیول کمپنی URENCO میں کام کرتے رہے اسی دوران جب بھارت نے مئی 1974میں ایٹمی دھماکہ کیا تو ڈاکٹر قدیر خان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آگئے اور اپنی خدمات ملک کے لیے پیش کیں اس طرح کے ا قدام کی توقع ڈاکٹر قدیر
خان جسے محب وطن انسان سے ہی کی جاسکتی تھی۔ 1976 میں وہ انجنیئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کہوٹہ کے انچارج بنے بعد میں اسی ادارے کو ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے پیش نظر خان ریسرچ لیبارٹریز یعنی کے آر ایل کا نام دیا گیا۔ جہاں وہ ایک عرصے تک خدمات انجام دیتے رہے۔ بقول ان کے انہوں نے1984میں ہی ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی لیکن اس وقت یہ دھماکے نہیں کئے گئے تاہم حکومت اور عوام دونوں مطمئن تھے کہ بھارت کی کسی بھی جارحیت یا اقدام کا بر وقت اور بھر پور جواب دیا جاسکتا ہے ۔ اس دوران بھارت ہر قسم کے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت اور تعداد بھی بڑھاتا رہااور آخر کا ر اس نے گیارہ ور تیرہ مئی 1998کوپوکھران II کے نام سے اپنے ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے ساتھ ہی اس کا لہجہ پاکستان کے لیے دھمکی آمیز ہوگیا۔ جس کا جواب دینے کے لیے پاکستانی عوام بے چین ہوگئی اور آخر کار حکومت نے بھارت کو مناسب اور سخت جواب دینے کا فیصلہ کر ہی لیا اور 28مئی 1998کو چاغی بلوچستان کے پہاڑوں میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف بھارت کو جواب دیا بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام دیا کہ ہم ترنوالہ نہیں ۔یہ دھماکے کر کے پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا اور اس سب کچھ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ غیر ملکی میڈیا نے ان کی وفات پر انہیںبجا طور پر پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کا باپ لکھا۔ دراصل یہ ڈاکٹر قدیر خان ہی تھے جنہوں نے اپنے اوپر مغرب اور دشمنوں کے ہر قسم کے الزامات برداشت کیے لیکن اپنے عزم و ارادے میں خلل نہ آنے دیا۔ ان کے بارے میںدنیا والوں نے کہا کہ وہ ہالینڈ سے نیوکلیئر فارمولا چوری کرکے گئے ہیںلیکن جو بھی جو کچھ کہتا رہاوہ کہتا رہا وہ اپنے دھن کے پکے نکلے اگرچہ یہ ایک عام وطیرہ ہے کہ کسی بھی ملک کا ایٹمی سائنسدان اگر اپنے ملک کے لیے ہیرو ہوتا ہے تو باقی کی دنیا کے لیے ولن لیکن ڈاکٹر صاحب کے سلسلے میں یہ رویہ بہت سخت تھا کیوں کہ وہ ایک اسلامی ملک کے ایٹمی سائنسدان تھے اور یہ بھی کہ ان کا دشمن ملک یعنی بھارت ان کے بارے میں بہت سخت پروپیگنڈا کرتاتھا لیکن اپنی دھن میں مگن یہ عظیم شخص نہ صرف اپنے کام سے کام رکھتا رہا اور اسے تیزی سے آگے بڑھاتا رہا بلکہ اپنے بعد آنے والوںکی رہنمائی بھی کرتا رہا اور ایک ٹیم تیار کرنے میں کامیاب رہا۔ ڈاکٹر صاحب 1971 کے سانحے کو کبھی نہیں بھولے اور ایک بار کہا اگر اس وقت ہمارے پاس ایٹم بم ہوتا تو ملک کبھی دولخت نہ ہوتا۔ انہیں دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتوں کی نا خوشی کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن یہ بات مستحکم ہے کہ ان کے لیے پسندیدگی میں کبھی کمی نہیں آئی، شاید بانیان پاکستان کے بعدوہ عوام کے لیے واحدغیر متنازعہ شخص تھے جن کے لیے پاکستان کے ہر صوبے ہر علاقے ہر شہر ہر گاؤں میںصرف اور صرف محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے تھے۔ کچھ لوگ صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ سرتا پاپاکستان ہوتے ہیںاور ڈاکٹرعبدالقدیر خان انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔آج جب وہ ہم میں نہیں رہے اور دس اکتوبر 2021 کو ہم سے جداہوگئے تو ہر پاکستانی غمگین ہے اور ہر زبان یہ اعتراف کر رہی ہے کہ وہ درحقیقت محسن پاکستان تھے ورنہ 28 مئی 1998کے بعدکئی ایسے مواقع آئے کہ لگتا تھا کی دشمن نے اب حملہ کیا کہ اب کیالیکن ایک ایٹم بم کی ہمارے پاس موجودگی نے ہمیشہ اس کے ارادوں کوخاک میں ملایا۔