وزیر اعظم اور سپہ سالارکی مشاورت

آئی ایس آئی پاکستان کا ایک اہم ادارہ ہے ، جس نے اپنے 73 سال کے نصف سے زائد عرصے تک ملکی سالمیت کے لئے دن رات کام کیا اور بے شمار قربانیاں دیںاور اب تک سیکورٹی کے معاملات میں کافی طاقت حاصل کی ہے۔آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تقرری کے سلسلے میں جنرل قمر باجوہ سے ہونے والی گزشتہ ایک ملاقات کے دوران عمران خان کی باڈی لینگویج کافی مثبت تھی اور وہ پراعتماد لگ رہے تھے۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان مشاورت مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی ) کے چیف کی تقرری کا عمل جاری ہے ۔اس سے قبل فوج نے نئی تعیناتیوں کے لئے وزیراعظم کو سفارشات کیں جن کے مطابق نوٹیفیکیشنزجاری کر دئیے گئے ماسوائے دو افسران کیایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود ، لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا بطور آئی ایس آئیکے نئے سربراہ کے طور پر تقرری کی تصدیق کا نوٹیفکیشن وزیراعظم کے دفتر نے جاری نہیں کیا ، جس سے سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی پر اسلام آباد میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ بعض نجومیوں نے تو یہ تک بتا دیا کہ حکومت کے کتنے دن باقی؟ رہ گئے ہیں ۔میں حیران ہوں ایسے نجومیوں پر جواب تک مختلف حکومتوں میں ایسی پیش گوئیاں کرکے جھوٹے ثابت ہونے کے باوجود انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ قیاس آرائیوں پر خود علم نجوم کا ماہر ہونے کا بتانے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتیہیں۔ حالانکہ ان تقرریوں کو لیکرپاکستانی حکومت کی جانب سے یہ اعلان سامنے آچکاہے کہ وزیر اعظم افغانستان میں ابھرتی ہوئی صورتحال کے باعث سبکدوش ہونے والیفیض حمید کو آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں جو کہ وزیر اعظم کا اختیار ہے کہ وہ اگلا سربراہ مقرر کرے۔ تازہ صورتحال کے مطابق خان اور باجوہ کے درمیان مشاورت مکمل ہو چکی ہے اور نئی تقرری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ جو بدھ کے روز وزیر اعظم آفس کو وزارت دفاع سے آئی ایس آئیکے نئے سربراہ کی تقرری کی سمری موصول ہونے کے باوجود آئی ایس آئیکے اعلان کے بعدتک تعطل رہا کیونکہ حکومت اس معاملے پر سخت غور کرتی رہی اور بالآخر منگل کو اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم فیض حمید کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان طویل ملاقات ہوئی ، جس کے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے۔آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری وزیر اعظم کا اختیار ہے اور وزارت دفاع کو ان کے تین نام تجویز کرنے ہیں۔ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ ان میں سے کسی کو منتخب کریں یا کسی اور کو مقرر کریں۔ تاہم آئی ایس آئی کے ڈی جی کی تقرری کے طریقہ کار کا نہ تو آئین میں ذکر ہے اور نہ ہی آرمی ایکٹ میں ، اور تمام سابق تقرریاں روایات کے مطابق کی گئی تھیں جس کے تحت آرمی چیف نے وزیر اعظم کو تین نام تجویز کیے جس پرحتمی فیصلہ ہوتا رہا۔ میڈیا کے کچھ دوستوں کی وزارت دفاع کے سینئر عہدیداروں کے ساتھ بات چیت سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حالیہ ہفتوں میں اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کے درمیان تعلقات میں کچھ دراڑیں سامنے آئی ہیں جو وزیراعظم کے سبکدوش ہونے والے ڈی جی کو برقرار رکھنے کے دعوے پر ہے۔ اگرچہ وزیر اعظم کے اصرار نے خان کے ممکنہ سیاسی مقاصد کے بارے میں سوالات کھڑے کر دئیے تھے ، فوج کے یکطرفہ اقدام نے وزیر اعظم کی منظوری کے بغیر نئے ڈی جی کی تقرری کا نوٹیفکیشن دے کر دونوں کے درمیان تعطل پیدا کر دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعلیٰ سیکورٹی قیادت مغربی ذرائع ابلاغ کے ساتھ انٹرویو کے دوران اہم خارجہ پالیسی اور سیکورٹی معاملات پر وزیر اعظم کے حالیہ دعووں اور تبصروں پر سنجیدہ ہے۔ فوج جو پچھلے 15 سال سے دو درجن سے زائد دہشت گرد گروہوں کی ممنوعہ چھتری تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے لڑ رہی ہے ، وزیراعظم ریاست کی اب اس لڑائی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔اس حوالے سے عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مفاہمت کے لیے تیار ہے ٹی ٹی پی کے ساتھ ان کی حکومت کی بات چیت مفاہمتی عمل کا حصہ ہے اور جو لوگ ہتھیار ڈالنے پر راضی ہیں انہیں معاف کیا جائے گا۔ حکومت کی عام معافی کی پیشکش پر انسداد دہشت گردی کی پالیسی پر سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اعلیٰ فوجی افسران کے لیے مفاہمتی اقدام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جنگ میں سیکورٹی فورسز کی کامیابیوں کو ختم کر دے گا۔ایسے سوال اٹھانے والوں سے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ٹی ٹی پی جس نے امریکہ جیسی سپرپاور کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے وہ اب پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار ہے تو یہ کامیابی کس کی ہے؟میرے نزدیک تو یہ پورے پاکستان کی کامیابی ہے جو فوج کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ اہم خفیہ ایجنسیآئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری کے معاملے میں قانون کی پیروی کی جائے گی ۔ قانون کے مطابق وزیر اعظم کو قانونی حق ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو آرمی چیف کی مشاورت سے تعینات کرے۔ نوٹیفکیشن میں تاخیر پر سوشل میڈیا پر قیاس آرائیوں کے باوجود حکومت نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کرکے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزیر اعظم خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین آئی ایس آئی کے سربراہ کے معاملے پر بات چیت کے لیے ہونے والی تازہ طویل ملاقات پر وزیراعظم نے بعد میں کابینہ کو اعتماد میں بھی لیاہے۔یہ بات طے ہے کہ نئے ڈی جی  کی تقرری میں قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جائے گا ، جس کے لیے دونوں (جنرل باجوہ اور وزیر اعظم خان) متفق ہیں۔وزیراعظم اور عسکری قیادت قریبی رابطہ میں ہیں۔دونوں (پی ایم خان اور جنرل باجوہ) اس پر متفق ہیں اور وزیر اعظم کو اس پر اختیار ہے۔

ای پیپر دی نیشن