اکتوبر پاکستانی تاریخ میں افسوناک باب بن کر رہ گیا ہے یہ وہ دن ہے جب ملک دشمن عناصر نے کراچی جیسے شہر جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے ٗ بے گناہوں کو خون سے نہلا دیا ان ملک دشمن عناصر کی سوچ انتہائی سطحی اور پست تھی ان ظالموں کا خیال تھا کہ ہم بزور طاقت محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشن کو سبوتاژ کر دیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا ان بے گناہوں کے خون سے پیپلز پارٹی کے جوش و جذبہ میں مزید اضافہ کیا۔ لیکن دشمن باز نہ آئے وہ ہر صورت میں محترمہ بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹا کر جمہوریت کا سورج غروب کرنا چاہتے تھے مگر پی پی کی محبوب لیڈر نے اپنی جاننذرانہ دے کر پیپلز پارٹی کو نئی زندگی بخشی ۔ 18اکتوبر 2007 کو شر کی جن قوتوں نے انسانی حقوق ٗ جمہوریت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے پاکستان آنے والی محترمہ بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کیلئے سینکڑوں لوگ مار دیئے تھے آج وہ منہ چھپائے ہوئے ہیں جبکہ محترمہ کی یادگار ٗان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری ایک نئے ولولے اور جوش و جذبے سے ان کو للکار رہا ہے ۔ اس موقع پر
بلال بھٹو نے نہ صرف شہدائے 18اکتوبر کے لواحقین کو احساس اپنائیت دیا ٗ بلکہ پاکستان دشمن قوتوں کو بھی خبردار کیا کہ عام آدمی کو حقوق دلانے کی جو جنگ اس کے نانا ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کی تھی اور جس کیلئے اس کی ماں نے بھی اپنی جان قربان کردی ۔ وہ جنگ جاری ہے ٗ دہشت گرد اور رجعت پسند ہزار ظلم کرلیں ان کو جمہوریت کے ذریعے شکست دی جائے گی ۔ بلاول بھٹو زرداری نے 18اکتوبر کو کراچی میں مزار قائد پر جلسہ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ جلسہ در اصل وہی ہے جو 18اکتوبر2007کو نہ ہو سکا تھا اور دہشت گردی کے ذریعے 180سے زائد کارکن شہید اور سینکڑوں زخمی کرکے وقتی طور پر محترمہ بینظیر بھٹو کو پروگرام
ملتوی کرنے پر مجبور کر دیا تھا ۔ اس رات محترمہ نے ایئر پورٹ سے مزار قائد اعظم پر آ کر خطاب کر نا تھا ۔ یہ جلسہ اور یہ خطاب ایک قرض تھا بلکہ پیپلز
پارٹی پر فرض تھا ، جو شہید بی بی کے جانشین بلاول بھٹو اسی تاریخ کو پورا کرنے جا رہا ہے ۔ یہ دن نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ پاکستان کے محروم اور مظلوم طبقوں کیلئے بھی ایک امید افزا دن ہے اور بی بی کی پارٹی کو ایک نیا جنم ملنے والا ہے ٗ سیاست میں گرما گرمی اور نئے دور کی نئی ضرورتوں کے تحت جس طرح نئے خون اور نئے جذبوں کی ضرورت ہے ٗ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی نوجوان قیادت کے ہاتھوں ایک نیا سفر شروع کرنے جا رہی ہے ۔ اگرچہ جلسہ کر اچی میں ہو رہا ہے مگر پورے ملک میں جوش و خروش ہے ۔اکتوبر کے مہینے میں اہل پاکستان کی افسوسناک اور خونی یادیں وابستہ ہیں ۔ 5اکتوبر کے زلزلے کے زخم ہوں یا قائد ملت لیاقت علی خان کی 16اکتوبر کو شہادت کا غم ٗ اپنی اپنی جگہ دلخراش ہیں مگر 18اکتوبر 2007کو ال وطن نے جو قیامت دیکھی ہے اس کی یاد ایک مستقل درد بن کر دلوں میں جاگزین ہے ۔ یہ وہ المناک تاریخ ہے جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی اور کروڑوں لوگوں کی امیدوں کا محور محترمہ بینظیر بھٹو ایک آمر وقت کے چنگل سے وطن کو آزاد کرانے کیلئے واپس آ رہی تھیں ۔ ان کی آمد پر خوشیوں سے سرشار لاکھوں جیالے کراچی میں موجود تھے کسی بھی سیاسی لیڈر کے استقبال کیلئے اتنے بڑے ہجوم کا یہ ایک ریکارڈ تھا ۔