جس کا کام اُسی کو ساجھے 

Oct 17, 2021

پاکستان میں ہمیشہ ہی سے نان ایشوز کو بلاوجہ ایشو بنانا حکومتی ٹیموں کا من پسند کھیل رہا ہے۔حکومتی غلام گردش کے لوگ صاحبِ اقتدار کی غیرضروری قربت کیلئے خوشامد کی تمام حدیں پھلانگ کر اداروں کے درمیان نہ ختم ہونے والی دراڑیں ڈال دیتے ہیں۔ حیران کن امریہ ہے کہ وزیراعظم خود تو دنیا بھر سے نامعلوم اور غیر معروف افراد کو اکٹھا کرکے اپنی ایسی ٹیم بنائیں کہ منتخب اراکین منہ دیکھتے رہ جائیں۔ خود تو وفاقی وزراء پر غیرمنتخب مشیروں کو ترجیح دیں اور دوسری طرف دنیا بھر کی مقتدر قوتوں کے اجتماعی ٹارگٹ پاک فوج کے سربراہ کے راستے میں اپنی ٹیم کے انتخاب میں بلاوجہ رکاوٹیں کھڑی کرتے جائیں۔ دنیا بھر میں جب بھی سرکاری یا خودمختار ادارے، نجی و صنعتکاری کے شعبے کسی کو بھی نمبر ون کی حیثیت سے ذمہ داریاں دیتے ہیں تو سب سے پہلے اسے اسکی مرضی کی ٹیم دی جاتی ہے اور پھر رزلٹ مانگا جاتا ہے۔ جب تک کسی بھی ادارے خواہ وہ نجی ہو یا سرکاری‘ اسکے سربراہ کو ٹیم کے انتخاب اور ’’رائٹ مین فار رائٹ جاب‘‘ کی تھیوری کیمطابق ٹیم بنانے کا اختیار نہیں ہوگا وہ کبھی بھی رزلٹ نہیں دے سکے گا۔ ہر سربراہ کے اردگرد کا پہلا دائرہ اسکے سب سے زیادہ بااعتماد لوگوں کا ہوتا ہے کیونکہ جب تک کسی بھی ادارہ جاتی سربراہ کی ٹیم کا پہلا حصار جسے ’’کور کمیٹی‘‘ کہتے ہیں، کے مابین ہم آہنگی نہ ہوگی تو کام چل ہی نہیں سکے گا۔
جناب سیاست پر بات کریں تو ایسی بھی مثالیں موجود ہیں کہ چوراہوں میں ویڈیوز چلیں اور الیکشن جیت گئے۔ سیلاب آیا دیگیں بانٹیں اور انتخابی میدان مار لیا۔ کسی نے چند فنکار اکٹھے کیے اور الیکشن اپنے نام کر لیا۔ اس قسم کے کسی بھی حربے سے اسمبلیوں میں تو بغیر تجربے پہنچا جا سکتا ہے اور بغیر کچھ سیکھے پانچ سال بھی گزارے جاسکتے ہیں مگر اس طرح کے حربے اور ٹوٹکے استعمال کرکے فوج میں تو اگلے مرحلے کی ترقی نہیں لی جاسکتی۔پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جنرل حمیدگل (مرحوم) جنرل پرویز مشرف کے بہت خلاف تھے۔ ایک ملاقات میں ان سے سوال کیا کہ آج آپ جنرل پرویز مشرف کے سب سے بڑے نقاد ہیں جبکہ انکو پرموٹ کرنیوالے کمیٹی میں آپ بھی شامل تھے تو یہ باتیں جو آج آپ کررہے ہیں‘ تب کیا آپکے علم میں نہ تھیں یا آپ کو یاد نہیں تھیں؟ انہوں نے سوال سن کر بڑے تحمل سے جواب دیا کہ فوج میں پرموشن کیلئے بہت سی چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔ اس کا کیرئیر بہت اچھا تھا۔ وہ ایک مکمل فوجی تھا اور کمانڈ کی تمام صلاحیتیں بھی ان میں موجود تھیں۔ تب انکی مہارت کو ذاتی زندگی پر فوقیت دی گئی۔ یہ وہ کسوٹی اور چھاننی ہے جس سے چھن کر ہماری فوج میں ایک ایک مرحلے پر ترقی حاصل کی جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکی صدر اپنی پسندیدہ ٹیم نہیں رکھتے، دنیا میں کونسا ایسا حکمران ہے جس کے رازدان یا بااعتماد ساتھی اقتدار میں بھی انکی قربت اور مشاورت میں نہ ہوں۔ دور کیا جانا کیا نواز شریف کی کچن کیبنٹ ساری کابینہ پر بھاری نہ تھی؟ کیا اکیلی ناہید خان بڑے بڑے جگادری وزراء حتی کہ وزرائے اعلیٰ کے مقابلے میں اہم ترین نہ تھیں حالانکہ وہ محض محترمہ بے نظیر بھٹو کی پرسنل سیکرٹری ہی تھیں۔ کیا میاں نواز شریف کی والدہ محترمہ کی خدمت گزار لیڈی ہیلتھ ورکر اور مریم اورنگزیب کی والدہ طاہرہ اورنگزیب کئی وزراء پر فوقیت نہ رکھتی تھیں۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو کا نورا کسی سے کم تھا؟ کیا جناب وزیراعظم جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو انہوں نے ہمیشہ اپنی مرضی کی ٹیم کا چناؤ نہیں کیا تھا؟ خود تو کسی سلیکشن بورڈ کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے اور خود ہی ون مین آرمی کی طرح پورے کا پورا سلیکشن بورڈ تھے۔ کیا بطور کپتان ہمارے محترم وزیراعظم نے اپنے کزن ماجد خان کو ان کا ٹیسٹ ریکارڈ مکمل ہونے دیا تھا اور کیا انہیں بغیرکسی معقول وجہ کے ٹیم سے باہر نہیں کردیا تھا۔
یاد رکھیںکہ جب تک کسی کو اسکی مرضی کی ٹیم نہیں دینگے آپ اس سے اپنی مرضی کا کام نہیں لے سکتے۔ میرے ایک دوست کے بڑے بھائی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے پاکستان میں کنٹری ہیڈ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ 14سال سے اس عہدے پر ہیں اور ملک بھر میں تمام تر بھرتیاں ازخود کرتے ہیں۔ اس تمام عرصے میں ہیڈ آفس واقع ویانا سے محض خط و کتابت ہی ہوتی ہے۔ ریکارڈ روزانہ کی بنیاد پر مرتب ہوتا اور ہیڈ آفس سوائے رزلٹ کے کسی بھی معاملے میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہمارا ہیڈ آفس اگر کسی جگہ کمزوری یا کوتاہی دیکھتا ہے تو صرف ایک نوٹ لکھا ہوا آجاتا ہے کہ فلاں ایریا میں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ دنیا کو ایک سسٹم کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ انسان تو روزانہ ایک طے شدہ شیڈول کے مطابق صبح کا چڑھتا اور شام کا ڈھلتا سورج دیکھتا ہے مگر شعور نہیں لیتا کہ جب اللہ باری تعالیٰ ایک سسٹم بنا کر کائنات کا نظام چلاتا ہے تو پھر ہم سسٹم کیوں نہیں بناتے؟
انہی سطور میں چند روز قبل لکھا تھا کہ آئی ایم ایف /ورلڈبنک کے نمائندے شوکت عزیز نے ایک تجویز دی تھی کہ ڈالر کی قیمت کے برابر ایک لٹر پٹرول کردیں اورباقی ہر طرح سے ٹیکس معاف کردیں۔ اب تو آئی ایم ایف نے بھی کھل کرکہہ دیا ہے کہ پٹرول 160روپے تو کیا 170 روپے تک جائیگا اور دیگر تمام ٹیکس بھی برقرار رہیں گے۔ ڈالر تو 171 کراس کر چکا ہے لہٰذا پٹرولیم مصنوعات بھی ساتھ ساتھ ہی چلیں گی۔ غلام اور ہاتھ پھیلانے والے کی کیا حیثیت؟ کیا کسی نے قرآن سے رہنمائی لی کہ سودی نظام حرام ہے۔ کیا اس ملک کے سارے صوبے الکوحل کی مصنوعات پر ٹیکس وصول نہیں کرتے اور کیا غلاظت کا ایک قطرہ دودھ جیسے نور کی بھری بالٹی کو پلید نہیں کردیتا؟ ہم قومی اور انفرادی سطح پر کتنے کم فہم ہیں کہ اپنے رزق کو ہی پاک نہیں کرپائے۔

مزیدخبریں