ہوش ربا مہنگائی معمولی مسئلہ نہیں

حکومت نے مہنگائی مافیائوں کیخلاف کارروائی کا عندیہ اس وقت دیا ہے، جب یوٹیلٹی سٹوروں پر خوردنی تیل کے نرخوںمیں یکایک 110 روپے فی لٹر اور بجلی کی قیمت بھی فی یونٹ 1.68بڑھا دی گئی ہے ۔ ادارہ شماریات کی جانب سے رواں ہفتے کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح‘ 12.66 فیصد بتائی گئی ہے‘ مہنگائی کیخلاف کارروائی کا آغاز پنجاب کی چند شوگر ملوں کے مالکان کیخلاف مقدمات درج کرنے سے ہوا ہے۔ صوبائی چیف سیکرٹری کیمطابق قانون شکنوں اورمقررہ قیمت سے زائد پر چینی فروخت کرنے والوں کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ حکومت کے اس اقدام سے چینی کی قیمت میں اعتدال آتا ہے یا نہیں ،سرکاری طور پر طے شدہ نرخوں کے مطابق استعمال کی اشیاء صارفین کو ملتی ہیں یا نہیں‘ یہ واضح نہیں مگر اس سے چینی کی صنعت میں بے چینی کی جو لہر پیدا ہوئی ہے، یہ مسئلہ توجہ طلب ہے۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی طرف سے کہا جا چکا ہے کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو یکم نومبر سے کرشنگ کا آغاز نہیں ہوگا اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے گنے کے کاشت کار اور چینی کے صارفین دونوں بُری طرح متاثر ہوں گے۔ شوگر مل مالکان سے حکومت کو بہت شکایات ہیں۔ گزشتہ دو‘ تین برسوں میں شوگر انڈسٹری کی طرف سے قیمتوں میں اضافہ کیلئے جو ناروا اقدامات اٹھائے گئے وہ بھلائے نہیں جا سکتے کہ یہ عوام کی جیبوں پر کھلا ڈاکہ ڈالنے کے مترادف تھا،جس پر ارباب اختیار محض بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکے اور چینی مافیا مفادات سمیٹنے میں کامیاب رہا۔
ملکی ضروریات کیلئے مطلوبہ سٹاک کو نظر انداز کرتے ہوئے چینی کی برآمد سے جو سلسلہ شروع ہوا وہ تاحال جاری رہنے کے باوجودنہ طلب کے مطابق رسد پوری ہوئی ہے اور نہ ہی قیمتوں میں کمی لائی جا سکی،بڑی مارکیٹوں سے لے کر پرچون فروشوں تک سب کے نرخ من مانے ہیں۔اس معاملے پر اعلیٰ سطحی تحقیقات بھی کرائی گئیں اوربار بار سفارشات بھی مرتب ہوئیں تاہم جب ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا مناسب موقع آیا تو ارباب اختیار سوائے میڈیا میں بیانات جاری کرنے کے کچھ نہیں کر سکے،یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی کہہ دیا کہ چینی مافیا طاقت ور ہونے کے باعث بے لگام ہو چکے ہیں، اس طرح درحقیقت حکمرانوں نے شوگر انڈسٹری کیخلاف بھرپور کارروائی کرنے سے چشم پوشی کی اورچینی درآمدکر کے اس مافیا کی اجارہ داری پر ضرب کاری لگانے کی کوشش کی مگر حکومت کا یہ اقدام چونکہ پائیدار اور قابل عمل نہیں تھا لہٰذا چینی کا بحران بتدریج شدت اختیار کرتا گیا۔حکومت چینی کی سرکاری قیمتوں پر فراہمی کے مسلسل دعوے کرتی رہی مگر عملاً چینی کی قیمتیںاڑان بڑھتی رہیں۔ اس دوران جو چینی درآمد کی گئی اسکے نرخ بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھے۔ ستمبر کے آخر میں درآمد کی جانے والی ساڑھے اٹھائیس ہزار ٹن سے زائد چینی ملکی بندرگاہ پر 109 روپے فی کلو میں پڑی ۔ ڈالر کی شرح مبادلہ میں اضافہ اور آئی ایم ایف کی جانب سے سبسڈی کم کرنے کے دباؤ میں حکومت کیلئے درآمد کی گئی مہنگی چینی عوام کو سستے داموں مہیا کرنا مشکل ہو گیا اس تناظر میں ملکی شوگر انڈسٹری کا تعاون اس بحران سے نمٹنے کیلئے ناگزیر ہے اگر شوگر انکوائری میںمرتب کی گئی‘ سفارشات پر بروقت عمل کیا جاتا تو عین ممکن ہے اب تک چینی کا یہ بحران حل ہو چکا ہوتا مگر اب جبکہ گنے کی فصل تقریباً تیار ہے اور ایک دو ہفتوں میں کرشنگ سیزن کا آغاز ہونے والا ہے تو شوگر انڈسٹری کیخلاف اقدامات اٹھانا مصلحتاً مناسب نہیں ہوگا۔ حکومت اور شوگر انڈسٹری میں قیمتوں پر جو تحفظات ہیں، انہیں ماضی میں بامقصد مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا تھا اگر حکومت نے درآمدی چینی‘ جو ملکی پیداوار سے بھی مہنگی پڑ رہی رہے‘ کے بجائے ملکی شوگر انڈسٹری کے ساتھ معاملات طے کر تے وقت مفاہمت کا رویہ رکھا ہوتا تو درپیش مسائل بھی حل ہو جاتے اور حکومت اور صارفین کو مشکلات کا سامنا بھی نہ کرنا پڑتا ۔
حالات کا تقاضا ہے کہ شوگر مل ایسوسی ایشن سے مذاکرات کو پہلی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جائے۔ شوگر انڈسٹری کے ساتھ محاذآرائی کسی بھی طور ملکی مفاد میں نہیں ہوگی ۔جو بھی ادارہ معاملات طے کرنے میں اپنی شرائط پر بضد ہو ،زمینی حقائق اور ملکی قوانین کی پروا نہ کرے ،حکومت کے پاس اسکے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کا اختیار ہے مگر موجودہ بحرانی کیفیت میں بہتر ین حل یہی ہے کہ مسائل کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ حل کیا جائے۔
آٹے کی بات کر یں تو اسکے نرخ بھی اس وقت سرکاری نرخوں سے 23 فیصد سے زائد ہیں۔ سبزیاں‘ گوشت اور انڈوں کی قیمتوں میں بھی بتدریج اضافہ ہو رہا ہے ۔گزشتہ روز حکومت نے صرف گھی کی قیمتوں میں 110 روپے فی کلو اضافہ کر کے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ایسے اقدامات معاملہ کی سنگینی کے عدم ادراک کا نتیجہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت کس کس شعبے کے صنعت کاروں کو پکڑے گی، مہنگائی کے جو بنیادی عوامل ہیں جب تک انکی جانب توجہ نہیں دی جاتی درپیش مسائل حل نہیں ہو سکتے‘ اس کیلئے اہم تقاضا یہ ہے کہ طلب اور رسد میں پائے جانیوالے عدم توازن کا خاتمہ کیا جائے۔ ملکی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جب تک ضرورت سے زائد اشیائے خوردونوش خاص طورپر غذائی اجناس کا اہتمام نہیں ہو گا ‘ مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ایسے مسائل جوں کے توں رہیں گے۔
 چنانچہ حکمران جب بھی تنبیہی نوعیت کے بیانات جاری کرتے ہیں تو ان بیانات کے اثرات مثبت کے بجائے منفی مرتب ہوتے ہیں اس لئے کہ بااثر مافیا ارباب اختیار کی کمزوریوں ،کوتاہیوں ، ناتجربہ کاری،سیاسی مصلحتوں اور قانونی موشگافیوں سے بخوبی واقف ہیں ،مزید یہ کہ ہر شعبہ میں چھائے مافیائوں میں ارباب اختیار کے اپنے کارندے بھی شامل ہوتے ہیں ،جو درپردہ اطلاعات رکھتے ہیں کہ حکومت کب اور کہاں کہاں کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...