حکومت نے پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گھی اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء میں غیرمعمولی اضافہ کرکے غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری سے عاجز آئے عوام کیلئے مہنگائی کے نئے سونامی اٹھا دیئے ہیں جس کے باعث عوام کی زندگیاں مزید اجیرن ہونگی اور خط غربت کے نیچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی گزارنے والے راندۂ درگاہ عوام کی تعداد مزید بڑھ جائے گی۔ جمعتہ المبارک کے روز حکومت کی جانب سے عوام پر بجلی کے نرخوں میں ایک روپیہ 39 پیسے فی یونٹ اضافے کا ہتھوڑا چلایا گیا اور اسی طرح یوٹیلٹی سٹورز پر گھی کے نرخوں میں فی کلو 110 روپے کا اضافہ کیا گیا جبکہ یوٹیلٹی سٹورز پر روزمرہ استعمال کی 72 دیگر اشیاء بشمول صابن‘ واشنگ پائوڈر‘ پنیر‘ سبز مرچ‘ ٹائلٹ کلینر‘ اچار‘ نوڈلز کی قیمتیں بھی شتر بے مہار بڑھیںجس سے عوام کیلئے عملاً فاقہ کشی کی نوبت آئی محسوس ہوئی۔ اب مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق اس ماہ میں دوسری مرتبہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 12 روپے فی لٹر تک اضافہ کرکے بے یارومددگار عوام کوچیڑ پھاڑ کیلئے مہنگائی کے عفریت کے آگے ڈال دیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ اس وقت کیا گیا جب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا فیصل آباد میں پبلک جلسہ منعقد ہو رہا تھا۔ چنانچہ حکومت نے اپنے خلاف عوام کو اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر آکر تحریک چلانے کاخود ہی موقع فراہم کیا۔
گزشتہ روز پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کیا گیا نیا اضافہ عوام کیلئے قطعی ناقابل برداشت ہے جس سے مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی گردن دبوچنے کا اہتمام ہوا ہے۔ اوگرا کی سفارشات کے قطعی برعکس حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کا ہفتے کے روز جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا‘ وہ عوامی دکھ درد کے احساس سے قطعی عاری نظر آتا ہے کیونکہ پٹرول کے نرخ دس روپے 49 پیسے فی لٹر اضافے کے ساتھ ریکارڈ بلند سطح 137 روپے 79 پیسے فی لٹر تک جا پہنچے ہیں۔ اسی طرح ہائی سپیڈ ڈیزل کے نرخ 12 روپے 44 پیسے فی لٹر اضافے کے ساتھ 134 روپے 97 پیسے فی لٹر کی بلند ترین سطح پر آگئے ہیں جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی دس روپے 49 پیسے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے جس سے مٹی کے تیل کے نئے نرخ 110 روپے26 پیسے مقرر ہوئے ہیں۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی تصور کردہ ریاست مدینہ میں مہنگائی کے ہاتھوں عوام کی کیا درگت بننے والی ہے اور وہ ردعمل میں اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کا چارہ بن کر حکومتی گورننس کیلئے کیا مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی ہی حکومت کے فیصلوں اور اقدامات کی بنیاد پر سونامی بن کر عوام کو لپیٹ میں لیتی ہوئی مہنگائی کا ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کے احکام جاری کرتے ہیں جبکہ ان کی کابینہ کے رکن بیرسٹر حماد اظہر بدستور سابق حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کا ڈھول پیٹتے ہوئے مہنگائی کا باعث بننے والی اپنی حکومتی پالیسیوں کا ملبہ بھی ان پر ڈال رہے ہیں۔ اسی طرح وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین‘ جن کے اس منصب کی چھ ماہ کی میعاد گزشتہ روز ختم ہو چکی ہے۔ واشنگٹن میں بیٹھ کر مہنگائی کے مارے اپنے ملک کے عوام کے زخموں پر یہ کہہ کر نمک چھڑک رہے ہیں کہ صرف پاکستان نہیں‘ دنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ انہیں دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے پاکستان کے عوام کے اور دنیا کے دوسرے متعلقہ عوام کے معیار زندگی کا بھی موازنہ کرنا چاہئے اور دوسرے ممالک کے عوام کو وہاں کی حکومتوں کی جانب سے حاصل سہولتوں اور مراعات اور اسی طرح ان ممالک کے عوام کیلئے روزگار اور کاروبار کے دستیاب مواقع سے بھی آگاہ کرنا چاہئے۔ اگر دیانتداری کے ساتھ یہ موازنہ کیا جائے تو ہمارے ملک کے عوام حکمران اشرافیہ طبقات کے پائوں تلے روندے جانے والے کیڑے مکوڑے ہی نظر آئیں گے جن پر سالانہ اور ضمنی میزانیوں میں ناروا ٹیکسوں کی بھی بھرمار کی جاتی ہے اور انہیں مختلف اشیاء کی خریداری اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کرتے ہوئے بھی براہ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی مار ماری جاتی ہے اور پھر انہیں تعلیم‘ صحت‘ روزگار کے حوالے سے سہولتیں دینے کی ریاستی آئینی ذمہ داری کے تقاضے نبھانے سے بھی ہاتھ کھینچا جاتا ہے۔ اس طرح عوام کی خدمات کے عوض انہیں حکومت کی جانب سے سہولتوں کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عوام کیلئے آئے روز مہنگائی کے سونامی اٹھانے کا اہتمام بھی حکومتی پالیسیوں کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں بڑھنے والی مہنگائی کا دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ موازنہ چہ معنی دارد؟
عوام کو غربت‘مہنگائی‘ بیروزگاری کے ہاتھوں زیادہ اذیت اس لئے بھی اٹھانا پڑ رہی ہے کہ انہوں نے سابق حکمرانوں کے اللے تللوں سے تباہ ہونے والی قومی معیشت کے باعث اپنے روزمرہ کے گھمبیر مسائل سے نجات کیلئے پی ٹی آئی کے منشور اور اس کے قائد عمران خان کے بلندبانگ دعوئوں پر صاد کرتے ہوئے ان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور 2018ء کے انتخابات میں انہیں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا مینڈیٹ دیا۔ چنانچہ پی ٹی آئی کے مسند اقتدار تک پہنچنے کے بعد عوام کا اپنے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کے فوری حل کیلئے اس پارٹی کی حکومت اور قیادت سے توقعات باندھنا فطری امر تھا۔ عوام کی یہ توقعات تو کیا پوری ہوتیں‘ پی ٹی آئی حکومت نے ان کے روٹی روزگار کے مسائل مزید گھمبیر بنا کر اور مہنگائی کے نئے سے نئے سونامی اٹھا کر ان کیلئے اشک شوئی کا اہتمام کرنا بھی ضروری نہ سمجھا اور ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کی پہلے سے بھی زیادہ کڑی شرائط کے ساتھ باندھ دیا۔ ان شرائط کو سر تسلیم خم کرکے قبول نہ کرنے اور ملک اورعوام کو مہنگائی کا سپیڈو میٹر لگانے کا باعث بننے والی ان ناروا شرائط سے خلاصی دلانے کا عزم لیکر آنے والے ہمارے منجھے ہوئے سیاستدان اور اقتصادی ماہر شوکت ترین آج عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ لاد کر آئی ایم ایف سے اس کے قرض کی اگلی قسط کی بھیک مانگنے کیلئے واشنگٹن میں اس کے آگے دوزانو ہو کر بیٹھے ہیںاور اپنے ملک کے عوام کو دنیا بھر میں مہنگائی بڑھنے کا لیکچر دے رہے ہیں۔ ان سے قبل حفیظ شیخ نے بھی آئی ایم ایف کا نمائندہ ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے قسط وار چھ ارب ڈالر کے بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف کی ہر شرط من و عن قبول کرکے ملک اور عوام کو اس کے پاس گروی رکھنے کا اہتمام کیا جبکہ اب عوام کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا اہتمام شوکت ترین کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔ اس پر عوام کی جانب سے جو ممکنہ ردعمل سامنے آسکتا ہے‘ حکمران طبقات کو اس کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔ جنہیں آج الفاظ کی ملمع کاری کے ساتھ سنائے جانے والے لیکچرز کی نہیں‘ حقیقی ریلیف کی صورت میں اپنے لئے عذاب بنے مسائل سے چھٹکارا پانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو عوام کے صبر کا مزید امتحان نہیں لینا چاہئے۔