امریکی صدر بائیڈن نے نظر بظاہر بغیر کسی فوری اور معقول وجہ کے پاکستان کے بارے میں غصہ اور بے چینی بڑھانے والے جو کلمات ادا کئے انہوں نے کم از کم مجھ کو تو حیران نہیں کیا۔ وہ سینئر ترین امریکی سیاستدان ہے۔ کئی دہائیوں تک امریکی سینٹ کا مسلسل رکن منتخب ہوتا رہا۔ اس کی بدولت دو دہائیوں تک امریکہ کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر نگاہ رکھنے والی سینٹ کی کمیٹی کا چیئرمین بھی رہا۔مذکورہ عہدے کے سبب پاکستان کو بھی خوب جانتا ہے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بابت اس کی جانب سے اٹھائے سوالات سے تلملائے لوگوں کی اکثریت کو غالباََ یاد نہیں رہا کہ کسی زمانے میں وہ ہمارا ”دوست“ بھی تصور ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں و ہ جمہوری نظام کو مضبوط تردیکھنا چاہتا تھا۔ اس خواہش کو عملی صورت دینے کے لئے اس نے پاکستان کی مالی مدد کا ایک منصوبہ بھی تیار کیا تھا۔ری پبلکن جماعت کے ایک سینیٹر لوگر کے ساتھ مل کر اس ضمن میں اس نے ایک قانون کا مسودہ بھی تیار کیا تھا۔وہ مگر تیار ہوگیا تو بائیڈن اوبامہ کے ساتھ امریکہ کا نائب صدر منتخب ہوگیا۔بعدازاں اسی کا تیارکردہ مسودہ ہی ہمارے ہاں کیری-لوگر بل کے نام سے مشہور ہوا۔
مقصد اس بل کا پاکستان کی منتخب حکومت کو ہماری ریاست کے دیگر اداروں کے مقابلے میں توانا تر بنانا تھا۔ہماری ریاست کے دائمی ادارے لہٰذا چوکنا ہوگئے۔ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی چلائی حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ مجوزہ قانون کو من وعن تسلیم نہ کریں۔ شاہ محمود قریشی ان دنوں ہمارے وزیر خارجہ ہوا کرتے تھے۔ ہنگامی طور پر واشنگٹن روانہ ہوگئے اور مجوزہ قانون میں ہمارے سکیورٹی اداروں کو تسلی فراہم کروانے والی ترامیم کی گنجائش نکالی۔ یوں امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات ”آنے والی تھاں“ پر واپس آگئے۔ بائیڈن نے اس کی بابت یقینا خفت محسوس کی ہوگی۔
اپنی ہزیمت کو شاید وہ بھول جاتا ۔اوبامہ کا نائب صدر ہوتے ہوئے لیکن وہ افغانستان میں جاری جنگ کے حوالے سے حکمت عملی تیار کرنے میں اہم کردار بھی ادا کرنا شروع ہوگیا۔ مذکورہ کردار نبھاتے ہوئے وہ اکثر افغانستان کے خلاف برپا جنگ کے تناظر میں پاک-امریکہ تعاون کی بابت ہماری ”نیک نیتی“ پر سوال اٹھاتا رہا۔اوبامہ عراق اور افغانستان کے خلاف چھیڑی جنگ کے خاتمے کے وعدے کے ساتھ برسراقتدار آیا تھا۔ عراق سے اپنی افواج نکالنے میں منتخب ہوجانے کے بعد کامیاب ہوگیا۔افغانستان کے حوالے سے مگر اس نے اپنے ہاتھ بندھے محسوس کئے۔ امریکہ کی فوجی قیادت مصررہی کہ اگر اسے مزید افواج اور جدید تر اسلحہ فراہم کردئے جائیں تو وہ افغانستان کی جنگ جیت کردکھاسکتی ہے۔بائیڈن اس سوچ کی ڈٹ کر مخالفت کرتا رہا۔ صدر اوبامہ سے مشاورت کے دوران مصررہا کہ ”اصل مسئلہ“ افغانستان نہیں پاکستان ہے۔ اسے ”قابو“ میں لایا جائے۔ اس تناظر میں اگر مالی معاونت کارگر ہوتی نظر نہ آئے تو پاکستان پر اقتصادی دباﺅ بڑھایا جائے۔ ہم اگر اپنے تئیں ”دہشت گردی“ پر قابو نہیں پاسکتے تو امریکہ کو اپنے ڈرون بھیج کر پاک-افغان سرحد پر موجود ”دہشت گردوں کی پناہ گاہوں“ کو تباہ کرنا ہوگا۔قصہ مختصر پاکستان کے ساتھ افغانستان کی وجہ سے اس کی مخاصمت کافی پرانی ہے۔گزشتہ برس کے 15اگست کے دن امریکہ کا جس انداز میں افغانستان سے انخلاشروع ہوا اس کی وجہ سے ٹی وی سکرینوں پر جہازوں کے پیٹ سے لٹکے افغان بچوں کی ہلاکت اسے کڑی تنقید کی زد میںلائی۔ اپنی خفت مٹانے کے لئے وہ پاکستان کو ”ڈبل گیم“ کا موردقراردینا شروع ہوگیا۔
پاکستان سے دیرینہ مخاصمت کی وجہ ہی سے اس نے منتخب ہوجانے کے بعد پاکستان کے سابق وزیر اعظم سے کبھی ٹیلی فون پر رسمی خیر سگالی والی گفتگو بھی نہیں کی۔اس کی بے اعتنائی نے عمران خان صاحب کو یہ بیانیہ فروغ دینے میں آسانی فراہم کی کہ بائیڈن اوراس کا ملک ان کی ”خوداری اور وطن پرستی“ سے ناراض ہوگیا۔اسی باعث وہ یہ تاثر اجاگر کرنے میں بھی حیراں کن حد تک کامیاب رہے کہ عمران خان صاحب کی ”خوداری سے اُکتاکر“ بالآخر واشنگٹن نے انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی چال لگائی۔ وہ چال کامیاب ہوگئی تو پاکستان پر ”امپورٹڈ“ حکومت مسلط کردی گئی۔
بائیڈن کے حالیہ کلمات مگر واضح انداز میں یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ محض عمران خان صاحب ہی سے خفا نہیں۔ ہمارا کوئی سیاستدان بھی اس کا ”چہیتا“ نہیںہے۔پاکستان کو بحیثیت مجموعی وہ ایک Most Dangerous Nationیعنی خطرناک ترین ”قوم“ تصور کرتا ہے۔بائیڈن کے بیان پر چراغ پا ہوئے پاکستانیوں نے مگر اس پہلو کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ہم فقط یہ ثابت کرنے کو مصر ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ”محفوظ ہاتھوں“ میں ہے۔اسے انتہائی منظم انداز میں چلایا جارہا ہے۔ہمارے ایٹمی اثاثوں کی ”چوری“ یا ممکنہ طورپر خطرناک لوگوں تک منتقلی ممکن ہی نہیں۔
بائیڈن کے ادا کردہ کلمات کو کئی بار غور سے پڑھنے کے بعد مگر میرے ذہن میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو اس نے بذاتہ”غیر محفوظ“نہیں ٹھہرایا ہے۔اس کے کلمات میں ملفوف اصل پیغام یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست انتشار کی جانب بڑھ رہی ہے۔اس کے فریقین باہم مل بیٹھ کر استحکام کی راہیں تلاش نہیں کررہے۔ تخت یا تختہ والی جنگوں میں جتے ہوئے ہیں۔اس تناظر میں جس ادارے کو ایٹمی پروگرام کا حقیقی محافظ تصور کیا جاتا ہے وہ بھی کم از کم ایک فریق یعنی عمران خان صاحب کی مسلسل تنقید کی زد میں ہے۔
پاکستان کو دُنیا کا ”خطرناک ترین ملک“ پکارتے ہوئے اس نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو مبینہ طور پر "Cohesion"سے محروم تناظر میں رکھ کر دیکھا ہے۔یہ لفظ میری دانست میں ہماری سیاست میں مسلسل بڑھتے ہوئے نفاق کا ذکر کرتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس کا اپنا ملک بھی اندھی نفرت وعقیدت میں خوفناک حد تک تقسیم ہوچکا ہے۔ٹرمپ صدارتی انتخاب ہار گیا تو اس کے حامیوں نے نتائج تسلیم نہیں کئے۔امریکی تاریخ میں پہلی بار ٹرمپ کے جنونی حامی پارلیمان کے ایوان میں دندناتے ہوئے داخل ہوگئے۔ کئی منتخب اراکین کونے کھدروں میں چھپ کر جان بچانے کو مجبور ہوئے۔ امریکی پارلیمان پر ایسے دیدہ دلیر حملے کے باوجود ہم نے خود کو دنیا کی سپرطاقت کہلاتے امریکہ کے ایٹمی پروگرام کی بابت سوالات نہیں اٹھائے۔ ہمارے ہاں مسلسل بڑھتے سیاسی نفاق کو بائیڈن نے مگر اپنے دل میں پاکستان کے خلاف برسوں سے جمع ہوئی پرخاش کے سبب مختلف انداز میں دیکھا ہے۔ہمیں اس کی بابت ضرورت سے زیادہ تلملاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔