انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے حکومتیں ہر دور میں شہر میں آفیسرز تعینات کرتی رہتی ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ سبھی انتظامی افسر باصلاحیت اور باشعور ہوتے ہیں عوام کی بہتری کے لیے ان کے دلو ںمیں درد بھی ہوتا ہے ۔ ان آفیسرز میں سے اکثریت ایک مخصوص انداز میں اپنے فرائض ادا کرتے ہیں اور پھر کسی نئے شہر نئی پوسٹنگ کو روانہ ہوجاتے ہیں ۔لیکن بہت تھوڑے آفیسرز ایسے ہوتے ہیں جو انتظامی امور کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ شہرمیں کچھ ایسے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ لوگوں میں مقبول ہوجاتے ہیں ایسے ہی ایک آفیسر ہمارے محترم دوست ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر شبیر بٹ صاحب ہیں ۔آپ سے پہلی ملاقات کا ذکر کرنا ضروری ہے اس سے قارئین کو بٹ صاحب کی ذوق و شوق اور ملنسار ی کا اندازہ بخوبی ہو جائے گا ۔پچھلی گرمیوں میں ہم نے شیخ دین محمد پبلک لائبریری میں ایک بیٹھک کا اہتمام کیا دوستوں نے بتایاکہ اے سی ہیڈکوارٹر شبیر بٹ صاحب نہ صرف ایک ادب دوست انسان ہیں بلکہ آپ اعلیٰ پائے کی شاعری بھی کرتے ہیں ۔اس لیے آپ کو تقریب میں ضرور بلایا جائے ۔فون کیا تو جناب نے ہماری دعوت کو فوری قبول کر لیا ۔تقریب میں وقت پہ تشریف لائے۔ہماری کوششوں کو سراہا اور شہر میں ادبی و ثقافتی تقریبات کے لیے ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ ہم سائبان کے پلیٹ فارم سے پچھلے کئی سالوں سے شہر میں ادبی و ثقافتی تقریبات شروع کیے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے شہر کے ادیبوں و شاعروں اور دانشوروں کے ساتھ بیٹھک کا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں ۔ ہماری شدید خواہش تھی کہ ہفتہ وار یا کم از کم مہینے میں ایک ادبی و ثقافی بیٹھک شیرنوالہ باغ کی بارہ دری میں رکھی جائے ۔جس میں ہر صاحب علم بآسانی شرکت کرسکے ۔ہم نے انتظامیہ سے بات چیت بھی کی لیکن سیکیورٹی یا دوسری کچھ وجوہات کی بناپر اس بارہ دری میں مشاعرے ،موسیقی، داستان گوئی اور صوفیانہ کلام کی محفل بسانے کی اجازت نہ دی گئی۔پھر شبیر بٹ صاحب خزاں میں بہار کے خوشگوار جھونکے کی طرح محسوس ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ شبیر بٹ صاحب نے ہمارے ساتھ کھڑے ہو کے ہمارے بہت سے معاملات آسان بنانے شروع کر دئیے ۔جیسے کہ شبیر بٹ صاحب سے سلام و دعا ہوئی تو اس کے اگلے چند ہفتوں بعد ہی ہم نے بارہ دری مہاراجہ رنجیت سنگھ میں ایک قوالی تقریب کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہوگئے۔کھلے آسماں تلے گوجرانوالہ کے شہریوں نے ایک مدت بعد ایسا سماں دیکھا تھا۔اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ان ملاقاتوں کا مقصد شہر میں ادب و ثقافت کے احیا کے لیے مل کے کوششیں کرنا ہی رہتا ۔پھر پچھلے سال جب پنجاب حکومت نے چودہ مارچ پنجاب کلچر ڈے منانے کا اعلان کیا تو بٹ صاحب کی فون کال آئی راجہ صاحب! فوراً دفتر تشریف لے آئیں۔پھر چہرے پہ مسکراہٹ سجائے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ چاہتی ہے کہ شیرانوالہ باغ میں ایک ایسا مشاعرہ ترتیب دیا جائے جس میں مقامی کے ساتھ ساتھ ملکی سطح پر نام بنانے والے شعرا کو بھی مدعو کیا جائے ۔بٹ صاحب کی محبت اور مشاورت سے اس رات ایک ایسی تقریب منعقد ہوئی جس میں پنجابی زبان و ثقافت کے لیے کام کرنے والے بڑے نام اورنامور شعرا سٹیج کی زینت تھے ۔لوگوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے چند دن بعد پہلے ایک ملاقات میں شبیر بٹ صاحب نے بتایا کہ کمشنر صاحب بہادر کی خواہش ہے کہ شیرانوالہ باغ میں ایک گوشۂ ادب تعمیر کیا جائے جہاں بنا روک ٹوک شہری آئیں اپنی مرضی کی کتب کا مطالعہ کریں ۔ گفتگوکے سلسلے شروع ہوں،گپ شپ ہو، ادبی و سیاسی مسائل پر بحث و مباحثہ ہو اور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی باہمی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ شیخ دین محمد کے بارے تفصیل سے تحریر لکھ چکا ہوں ۔مختصر یہ کہ آپ قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں میں سے تھے۔تحریک پاکستان میں آپ کی کوششیں قابل تعریف ہیں ۔لیکن میں نے پہلے بھی کئی بار عرض کیا ہے کہ ہم ایسی غریب قوم ہیں کہ اپنے محسنوں کی یادگاریں بھی اپنے پلے سے نہیں بنا پاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جسٹس دین محمد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اُن کے نام پہ لائبریری کی نئی عمارت کہیں اور بنانے کی بجائے اسے شیرانوالہ باغ میں ہی تعمیرکردیا گیا۔ کبھی شہریوں کی ایک کثیر تعداد اس سے استفادہ کیاکرتی تھی۔ پھر حکمرانوں کی عدم توجہی کے سبب لائبریری کی عمارت بھوت بنگلے کا نمونہ پیش کرنے لگی۔نتیجہ یہ ہوا کہ علم کے متلاشیوںنے ادھر کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ ۔اب اگر انتظامیہ بارہ داری کے کسی ملٹی نیشنل کمپنی کی تعاون سے ایک ٹی ہاوس بنادے ۔باغ کی صفائی ستھرائی پہ خاص دھیان دیا جائے روشنی کا بہترانتظام کیا جائے اور شہر کی ادبی تنظیموں کو ہفتہ وار محفلیں سجھانے کی اجازت دی جائے تو شہر میں ایک بار پھر سے ادبی بیٹھکوں کا دور لوٹ سکتا ہے۔