امریکی صدر کا پاکستان سے متعلق غیر ذمہ دارانہ بیان


پاکستان کا جوہری پروگرام امریکا کی آنکھوں میں روزِ اول ہی سے کھٹک رہا ہے۔ اسی لیے امریکا نے 28 مئی 1998ء کو ہونے والے جوہری تجربات سے پہلے کئی مواقع پر یہ کوشش کی کہ کسی طرح پاکستان کے جوہری پروگرام کے راستے میں روڑے اٹکا کر اسے تکمیل تک پہنچنے سے روکا جائے۔ جب امریکا کو اس حوالے سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو پھر یہ کوششیں شروع کردی گئیں کہ پاکستان جوہری تجربات کے ذریعے اپنی دفاعی قوت کا اظہار نہ کرے۔ بھارت خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے پہلے ہی ایٹمی دھماکے کرچکا تھا اور طاقت کے نشے میں بد مست ہو کر پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان کا جوہری تجربات کرنا ناگریز تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے عسکری قیادت کے تعاون سے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے پاکستان سے متعلق دنیا بھر کا نقطۂ نظر بدل کر رکھ دیا۔ اگر پاکستان اس موقع پر جوہری تجربات نہ کرتا تو آنے والے وقت میں اسے اپنے دفاع کے حوالے سے کئی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا۔ جن شخصیات نے وزیراعظم نواز شریف کو جوہری تجربات کرنے کے لیے قائل کیا ان میں معمار ’نوائے وقت‘ مجید نظامی (نشانِ پاکستان) کا نام بھی شامل ہے۔
آج سے ربع صدی پہلے جب پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں جوہری تجربات کیے تھے تب بھی ایک امریکی صدر (بل کلنٹن) نے اس اقدام اور پاکستان کے جوہری پروگرام سے متعلق ناگواری کا اظہار کیا تھا۔ اور آج بھی ایک امریکی صدر (جوزف بائیڈن) پاکستان کے جوہری اثاثوں سے متعلق غیر ذمہ داران بیان دے کر یہ ظاہر کررہے ہیں کہ امریکا کو پاکستان کا جوہری قوت بننا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں چندہ جمع کرنے کی ایک مہم کے دوران صدر بائیڈن امریکی مفادات کو درپیش عالمی خطرات کا ذکر کررہے تھے جب انھوں نے بلا ضرورت اور اچانک یہ الزام لگایا کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کوئی تربیت نہیں۔ اس غیر ذمہ دارانہ بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی سیاست دانوں کی طرح امریکی سیاست دان بھی اپنے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، اس سلسلے میں وہ پاکستان کا ذکر خاص طور پر کرتے ہیں۔
دفتر خارجہ نے جو بائیڈن کے الزام پر ردعمل ظاہر کر تے ہوئے پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو طلب کیا۔ سیکرٹری خارجہ نے احتجاجی مراسلہ امریکی سفیر کے حوالے کرتے ہوئے انھیں صدر بائیڈن کے غیر ضروری بیان پر پاکستان کی مایوسی اور تشویش سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر ڈونلڈ بلوم پر واضح کیا گیا کہ امریکی صدر کے ریمارکس زمینی حقائق کے منافی ہیں۔ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے اور اس کا جوہری پروگرام عالمی معیار کے مطابق ہے۔ پاکستان کے محفوظ جوہری پروگرام کو بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) سمیت تمام اداروں کی طرف سے عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ دوسری جانب، امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے صدر بائیڈن کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے پاکستان کے ایک نجی ٹیلیویژن چینل سے گفتگو کے دوران کہا کہ امریکا ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے لیے پاکستان کے عزم پر پر اعتماد ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ طویل عرصے سے جاری تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے امریکی صدر سے منسوب بیان حقائق کے برعکس اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ اپنے بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھاکہ گزشتہ دہائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان انتہائی ذمہ دار جوہری ریاست ہے اور جوہری پروگرام مؤثر تکنیکی اور فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے زیر انتظام ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت سے متعلق پاکستان نے ہمیشہ نہایت ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کیا ہے اور آئی اے ای اے سمیت عالمی معیارات کے اپنے پختہ عہد کو پورا کیا۔ ایک پریس کانفرنس کے دوران اسی حوالے سے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ امریکی صدر کا بیان حیران کن ہے لیکن پاکستان اپنی سالمیت کی بقا کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جوہری اثاثوں کی سکیورٹی اور حفاظت کے حوالے سے سوالات تو ہمارے پڑوسی بھارت سے پوچھنے چاہئیں جس نے حال ہی میں حادثاتی طور پر پاکستانی سرزمین پر میزائل فائر کیا تھا جو نہ صرف غیر ذمہ دارانہ عمل اور انتہائی غیر محفوظ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے قابلیت پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
بھارت کے ہی غیر ذمہ دار ہونے کا کیا مذکور، امریکا بہادر دنیا میں وہ واحد ملک ہے جس نے کسی دوسرے ملک (جاپان) پر جوہری ہتھیاروں سے حملہ کر کے یہ ثابت کیا کہ اس سے بڑا بربریت کا پرچارک اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ 6 اور 9 اگست 1945ء کو بالترتیب ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی بم گرا کر امریکا نے دنیا کو بتایا کہ ظلم و ستم کی داستان رقم کرنے کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، مذکورہ دونوں شہروں پر ہونے والے حملوں کے نتیجے میں سوا دو لاکھ سے زائد افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ یہ ’اعزاز‘ بھی امریکا ہی کو حاصل ہے کہ اس نے 1958ء میں چاند پر جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مئی 2020ء میں امریکی جریدے ’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں امریکی طبیعیات دان اور مذکورہ منصوبے کے انچارج ڈاکٹر لیونارڈ ریفل (Leonard Reiffel) نے بتایا تھا کہ چاند پر ایٹم بم چلانے کا بنیادی مقصد دنیا کو امریکا کی طاقت سے متاثر کرنا تھا۔ اسی لیے پاکستان میں تعینات کیوبا کے سفیر زینیر کیرو (Zéner Caro) نے سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے یہ سوالات پوچھے کہ 1798ء سے آ ج تک کس ملک نے 469 مرتبہ فوجی مداخلتیںکی ہیں؟ کس ملک نے شہریوں پر ایٹم بم استعمال کیے؟ اور دوسروں پر غیر انسانی پابندیاں کون لگا رہا ہے؟
صدر جو بائیڈن اگر گزشتہ ایک صدی کے دوران دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والی منفی سرگرمیوں میں امریکا کے کردار کا جائزہ لے لیتے تو ان پر واضح ہو جاتا کہ دنیا کا سب سے غیر محفوظ اور غیر ذمہ دار ترین ملک کون سا ہے۔ امریکی صدر شاید اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ پاکستانی عوام پہلے ہی امریکا کے بارے میں کوئی مثبت رائے نہیں رکھتے، ایسے میں ان کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا سامنے آنا دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید رکاوٹیں پیدا کرسکتا ہے۔ اگر امریکی انتظامیہ واقعی پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہاں ہے اور امریکا خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے تو امریکا کے اعلیٰ عہدیداروں کو پاکستان سے متعلق ایسے بیانات سے گریز کرنا چاہیے جو مسائل کو بڑھانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بہرحال، امریکی وزارتِ خارجہ کی طرف سے صدر بائیڈن کے بیان کی وضاحت میں کی جانے والی بات اور پاکستان سے اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار خوش آئند ہیں۔

ای پیپر دی نیشن