پلک جھپکتے ہی ایک سال گزر گیا،365 دن لمحوں میں گزر گئے، انسانی زندگی بھی کیا چیز ہے، کس طرح برف کی مانند تیزی سے پگھل رہی ہے اور ہمیں شعور ہی نہیں، ابھی کل کی بات معلوم ہوتی ہے، محسن ِ پاکستان، شان ِ پاکستان، ممتاز ایٹمی سائنس دان قبلہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سال قبل ہمیں داغ مفارقت دے گئے، ان کے انتقال کی خبر نے اندر سے توڑ کر رکھ دیا تھا، اپنے والد گرامی صدر جنرل محمد ضیاء الحق شہید کے بعد مجھے اپنی والدہ ماجدہ کے انتقال نے توڑ کر رکھ دیا تھا اور ان کے بعد ڈاکٹر صاحب کااس فانی دنیا سے رخصت ہونے کاصدمہ سہنا پڑا ہے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک سچے عاشقِ رسول اور تصوف سے شغف رکھنے والے مسلمان ایٹمی سائنسدان تھے اسلام کی تعلیم اور دین کے متعلق ان کا وژن بہت واضح تھا، یہ نکتہ ان پر بہت واضح تھا کہ ہمارا دشمن ملک ان کے کارنامے کی وجہ سے ہماری سرزمینِ پاک کو چھو تک نہیں سکتا۔آج اگر ہم محفوظ ہیں تو اس کے لئے اے کیوخان کے شکرگزار ہیں، وہ پاکستان کو ایک ناقابل تسخیر دفاعی نظام دے کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور یوں اپنی محنت اور دیانت داری سے کام کرتے ہوئے نہ مٹنے والی تاریخ چھوڑ کرگئے ہیں، جب وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہوئے تو انہوں نے تن من دھن ایک کردیا اور اپنی ساری سانسیں اس پروگرام کو دے دیں،سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنانے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد بھٹو دور میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کاآغاز کیا،
بھارت نے 1974 ء میں ایٹمی تجربہ کیا تو ہالینڈ میں موجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے منسلک ہونا چاہتا ہوں، بھٹو نے انہیں پاکستان آکر ملنے کی دعوت دی دسمبر 1974 ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ آغا شاہی کے ہمراہ ڈاکٹر قدیر خان سے ملاقات کی، اس کے بعد وہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن سے منسلک ہوگئے۔ یہ غالباً1976 ء کی بات ہے کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک خط لکھا اور اپنے تمام تحفظات سے آگاہ کیاکہ کام سست رفتاری سے ہو رہا ہے، خط میں سخت مایوسی کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ وہ واپس جانا چاہتے ہیں اس خط کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے آغاشاہی، امتیاز احمد، اے جی این قاضی، غلام اسحق خان، کے علاوہ سیکرٹری دفاع اور دیگر اہم افراد کو ہدائت کی کہ ڈاکٹر قدیر خان کے تحفظات غور سے سنا جائے اور انہیں دور کرنے کی ہر ممکن عملی کوشش کی جائے، بہر حال متعدد ملاقاتوں کے بعد یہ بات طے ہوگئی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک خود مختار ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے کام کریں گے اور کوئی
مداخلت نہیں ہوگی۔اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق کی کوششوں سے ڈاکٹر صاحب کے تحفظات بھی دور ہوئے اور دفاع پاکستان کی کہانی تیزی سے آگے بڑھنے لگی اور ایک دن آیا کہ سب کچھ خاموشی کے ساتھ تیار کرلیا گیا اور محض اعلان باقی تھا، یہ منزل پاکستان نے جنرل محمد ضیاء الحق کے زمانے میں حاصل کرلی تھی، اور انہی کے زمانے میں کولڈ ٹسٹ بھی کرلیا گیا تھا یہ وہ وقت تھا کہ جب ہمارے پڑوس میں افغان جہاد جاری تھا، پوری دنیا کی نظریں اس جہاد پر تھیں اور جنرل ضیاء الحق خاموشی کے ساتھ مکار دشمن کے پاکستان کے بارے میں مکروہ عزائم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکتے رہے، یوں افغان جہاد بھی ہمارے ایٹمی پروگرام میں کسی نہ کسی حد تک حصہ دار بنا، جنرل ضیا الحق نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا، ان کے دور میں ایٹم بم تیار ہوچکا تھا،10دسمبر1984 ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے صدر جنرل محمد ضاء الحق کو حتمی کامیابی کی اطلاع دی،جس پر جنرل ضیاء الحق نے کہا کہ اب اس ملک کا مستقبل محفوظ ہے کوئی ہمیں بری نظر سے نہیں دیکھ سکتا، ۱۱ مئی 1998 ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو 28 مئی کو بلوچستان میں چاغی کے مقام پر بھارت کو چھ ایٹمی دھماکے کرکے جواب دیا گیا ۔ آغاز سے حتمی کامیابی کے حصول تک کے اس پر خطر سفر میںڈاکٹر قدیر خان اور ہمارا ایٹمی پروگرام بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان اور ڈاکٹر قدیر خان پر افتاد آن پڑی، مگر وہ ثابت قدم رہے، اپنی زندگی کے آخری دس پندرہ سال انہوں نے اپنے گھر میں نظر بندی میں گزارے، ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مَیں دسمبر1971ء کو کبھی نہ بھلا سکا‘‘ ان کا یہ پیغام قوم کے لیے آج بھی قیمتی اور بہترین اثاثہ ہے وہ پوری قوم کے……… ہیرو…… ہیں، ہیرو تھے اور ہیرو رہیں گے۔
٭…٭…٭