اقصیٰ کی پکار۔۔ 

اقصیٰ کی پکار۔۔ 

تحریر۔ محمد عمران الحق۔لاہور 
آج مسجد اقصیٰ،امت کو پکار رہی ہے۔کوئی ہے جو مظلوموں کی مد د کو پہنچے، کوئی ہے جو ظالم کو ظلم کرنے سے روک سکے۔ کوئی ہے جو کفار کو اسی کی زبان میں جواب دے سکے۔ظالم نے تمام حدیں پار کر دیں ہیں۔ مسلمانوں کی زمین پر ہی ایک نا جائز ریاست کا قیام کر کے مسلمانوں پر ہی ان کی زمین کو تنگ کر دیا گیا ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ معاشی مفادات کی خاطر کسی مسلم ملک میں اتنی جرات باقی نہیں رہی کہ وہ کفار کے خلاف اپنی قوت کا مظاہر ہ کر سکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل سمیت دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ان کا ساتھ دیا جائے۔ امت مسلمہ کی یہ دینی و اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کرے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان 6 دن سے جاری جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1350 سے تجاوز کرگئی، ہزاروں زخمی بھی ہیں جب کہ صہیونی فورسز کی وحشیانہ بمباری میں 1447 فلسطینی شہید ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، 6ہزار سے زاید زخمی ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی بمباری میں شہید افراد کی نصف تعداد بچوں اور خواتین پر مشتمل ہیں۔اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے کہاہے کہ اسرائیل غزہ میں اسپتالوں، اسکولوں اور ہمارے امدادی مراکز کو نشانہ بنارہا ہے۔ اسرائیلی فوج کی بمباری کی وجہ سے 3 لاکھ 38 ہزار فلسطینی بے گھر ہوگئے۔ صرف غزہ میں ہمارے 92 مراکز کام رہے ہیں جس میں سوا 2 لاکھ کے قریب فلسطینیوں نے پناہ لے رکھی ہے لیکن اسرائیل ان مراکز پر بھی بمباری کر رہا ہے۔ غزہ کی فوری طور پر ناکہ بندی ختم کرکے پانی، خوراک اور ایندھن کی فراہمی شروع اور بجلی بحال کی جائے، اس وقت لاکھوں شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ مصر کی جانب سے غزہ کے پناہ گزینوں کو محفوظ راہداری فراہم کرنے سے انکار پر تشویشناک ہے، غزہ تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آنے والی امداد کا واحد راستہ رفاہ کراسنگ بارڈر ہے۔
 غزہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر دہائیوں سے جاری مظالم کا ردعمل ہے۔فلسطینیوں کو دفاع کامکمل حق حاصل ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور غیر قانونی قبضے کے خلاف حماس کا جوابی حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان اگر متحد ہو جائیں تو دنیا کی کسی بھی بڑی قوت سے ٹکرانے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اس لئے مسلم ممالک حماس کی مکمل حمایت کا اعلان کریں۔ اگر دیکھا جائے تو غزہ کی صورتحال کا اصل ذمہ دار یو این اور اور عالمی برادری ہے، اگر اسرائیل کا راستہ روکا گیا ہوتا اور مسلم آبادی کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہوتا تو دنیا ایک مرتبہ پھر سی تباہی کے دھانے پر نہ ہوتی۔ عالمی ادارے اسرائیل کی ناجائز سرپرستی کر کے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رہے ہیں۔ امریکا یورپ اور اقوام متحدہ اپنی بے حسی، جانبداری، مسلم دشمنی اور صہیونی نوازی ترک کریں اور مسئلہ فلسطین انصاف اور حق کی بنیاد پر حل کیا جائے۔
پر تشدد کارروئیاں اسرائیل کا طریقہ کار ہے اس نے ہمیشہ امن معاہدوں کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھا ہے۔ الحمد للہ، نہتے فلسطینیوں نے ذلت کی موت کی بجائے عزت کی شہادت کو ترجیح دی ہے۔ اسرائیل جتنا بھی ظلم کر لے فلسطینی آزادی اور اپنی سرزمین سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔لاکھوں فلسطینی مرد، خواتین بچے شہید ہو گئے، نسل درنسل فلسطینی آزادی کی جنگ جرات و استقامت سے لڑ رہے ہیں۔عالم اسلام ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرے، قبلہ اول کی بازیابی ملت اسلامیہ کی گردن پرقرض ہے۔ اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کے ارادے ترک کیے جائیں، عالم اسلام اور امت کا اتحاد ہی عزت اور کامیابی کا راستہ ہے۔تشدد کے تازہ ترین واقعات گذشتہ کئی ماہ سے بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں سامنے آئے ہیں۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازع نیا نہیں بلکہ اس کی جڑیں کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں تھے۔1920 تا 1940 کے دوران یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر بھاگ گے۔جس کے فورا بعد یہودی رہنماو¿ں نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔بہت سے فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ ہمسایہ عرب ممالک کی فوجوں نے بھی اس جنگ میں حصہ لیا۔لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ اس واقعے کو النکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اگلے برس جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔اردن نے جو خطہ حاصل کیا اسے ویسٹ بینک یعنی غربِ اردن کہتے ہیں اور مصر نے عزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔کیونکہ یہاں پر امن معاہدہ نہیں ہوا اس لیے ہر فریق نے اپنے مخالف پر الزام دھرا اور مزید جنگیں بھی ہوئیں اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا۔
اسرائیل نے حماس کے اچانک حملے کے جواب میں غزہ پر فضائی حملے کیے ہیں۔ غزہ کی پٹی تقریباً 2.3 ملین افراد کا گھر ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کی روشنی میں اسرائیل کی سیکورٹی پر اگر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حما س کے حملے کے بعد اسرائیل کا نا قابل تسخیر ہونے کا تاثر خاک میں مل چکا ہے۔اسرائیلی دفاعی نظام ناکام ہو چکا ہے۔میں یہ سمجھتاہوں کہ یہ جنگ محض ایک مختصر حملہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچا سمجھا اور طویل جاری رہنے والا منصوبہ ہے جو کہ حماس کی جانب سے شروع کیا گیا ہے اور اس کی پلاننگ میں کئی ماہ لگائے گے ہوں گے۔اس کارروائی کا مقصد اسرائیل کے خلاف مزحمتی تحریک اور جدوجہد کو تیز کرنا اور مزید اسرائیل کے لئے مشکلات بڑھانا ہے۔ یقینی طور پر اس بار اسرائیل کے لئے جنگ آسان نہیں ہو گی کیونکہ خدشہ ہے کہ یہ گوریلا وار میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن