قانوں کی بالادستی اور ہماری ذمہ داریاں

قانوں کی بالادستی اور ہماری ذمہ داریاں
بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

آئین کی پاسداری اور قانون کی بالادستی کا عہد و پیمان گھر کی دہلیز سے ایوان مقدس کی چوکھٹ تک سب کے سب کرتے ہیں اور جب آئین سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا تقاضا کرے اور قانون سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھنے کی دھائی دے تو تو بڑے عہدوں اور بالا منصب پر جلوہ افروز ہستیاں جانبداری کی عینک لگا کر ترازو کے پاٹ غیر متوازن کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں جہوریت ،اصول وضوابط اور انسانیت کے تاج محل میں ایک بھی اینٹ بے ترتیب اور بے اصولی کی ہو تو پوری عالی شان عمارت اس وقت تک بے ڈھنگی رہے گی جب تک اس کی درستگی نہ کر لی جائے!!جن سماج میں اصول ' قانون اور آئین کو اہمیت اور سر کا تاج قرار دیا گیا وہاں سچ اور آئین کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہاہے۔ سچ کا یہ سورج آج بھی ان معاشروں کو اصلاح کی روشنی دے رہا ہے 
تھوڑی دیر کے لئے رکیں …ہم اب ایک نظر جسٹس منیر سے جسٹس بندیال تک کے عدالتی رویے پر ڈالتے ہیں۔ ہمیں جگہ جگہ آئین میں جانبداری ،مصلحت اور نظریہ ضرورت کے پیوند نظر آئیںگے۔ بڑی عدالت کے ''بڑے حج صاحبان'' انصاف کا بول بالا اور عدل کا چراغ پورے طمطراق سے روشن کرتے تو آج ہم ، ہمارا سماج اور ہماری قوم یوں آئینی بحران کی زد میں نہ رہتی!! کسی کو خوش کرنے اور کسی کو خوشی دینے کی اس جانبدارانہ روشن نے ہمیں بحیثیت قوم آگے بڑھنے نہ دیا۔ حالت یہ ہوگئی کہ ثاقب نثار دور میں بین القوامی معاہدوں کو بھی پسند نا پسند کے انداز سے دیکھ کر قومی خزانے کو زک پہنچائی گی۔ ابھی کل ہی بات ہے کہ جسٹس بندیال سے فرد، شخصیات اور ادارے فل کورٹ بنانے کی درخواستیں اور التجائیں کرتے رہے مگر مجال ہے بڑے منصف نے اپنی انا کے شملے کو حرکت دی ہو؟جسٹس منیر چالیس برس قبل اسمبلی بحال کرکے صدارتی حکم نامہ غیر قانون قرار دے دیتے تو آج آئین میں'' نظریہ ضرورت'' کے یپوند سے پہنچنے کے سارے راستہ مسدور ہو جاتے۔ 
یاد کرتا ہے زمانہ ان انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
 یہ بھی درست ہے کہ ہمیشہ سے پاکستان میں قانون کے بارے میں مختلف فقرے بولے جاتے رہے ہیں۔ ہر بار کسی نہ کسی رنگ میں ہمارے ملک میں قانون کی تحضیک اور مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور یہ کام قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہو گیا غالباً جسٹس منیر صاحب سے اس کی ابتدا ہوتی ہے اس دور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر ضیا الحق دور میں چھٹی جماعت میں ہونے کے باوجود چیزیں بہت اچھی طرح سے یاد رہیں اور اس دور میں ایک مرتبہ پھر سے قانون کی تحضیک شروع ہو گئی اور اسی دور میں ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے کر قانون کے بت کا منہ کالا کر دیا گیا پھر 1988 میں جمہوریت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔دو سال بعد اس وقت کے صدر محترم اپنے ذاتی عناد کی وجہ سے 58/2B کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے جمہوری حکومت کو با حفاظت گھر بھیج دیتے ہیں اس کے بعد گھر جانے والی حکومت پاکستان کی اعلٰی ترین عدالت میں حصول انصاف کے لئے پہچتے ہیں اور عوام کی آنکھوں میں خوب قانون ، قانون کھیل کر ڈالا جاتا ہے اس طرح ایک مرتبہ پھر قانون سے کھیلواڑ ہو جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قانون ہمارے گھر میں رہتا ہے اسی طرح دوسری جمہوری حکومت 1990 میں آ جاتی ہے اور اس حکومت کی بھی کسی نازک جگہ پر صدر محترم اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ٹھڈا مار کر گھر بھیج دیتے ہیں یہ حکومتی ارکان پاکستان کی اعلٰی ترین عدالت میں پہنچ جاتے ہیں جب اس پارٹی کے لوگوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ محترم جج صاحبان قانون کے ساتھ کھیلنے لگے ہیں تو وہ حفظ ماتقدم کے تحت اعلیٰ ترین عدالت کو فتح کرنے چل پڑتے ہیں اور باقاعدہ طور پر سپریم کورٹ پر حملہ کر دیتے ہیں جو کہ ایک بار پھر سے اعلیٰ عدلیہ کے منہ پر سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے حملہ کرنے والی پارٹی نے اس حملے سے جان چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر ان کی جان چھوٹ نہیں سکی۔ پھر تیسری جمہوری حکومت آجاتی ہے اس حکومت کے ساتھ بھی دو ڈھائی سال کے بعد پہلے والا ہاتھ ہو جاتا ہے نتیجتاً یہ حکومتی ارکان پھر سے اعلیٰ ترین عدالت میں حاضر ہوتے چند دن قانون ، قانون کھیل کر پھر سے انہیں فارغ کر دیا جاتا ہے جس کے بعد معزز عدالت کے حصے میں کینگرو کورٹ کا خطاب آتا ہے 1996 میں نئی حکومت آ جاتی ہے اور اس حکومت کو 12 اکتوبر 1999 میں فتح کر لیا جاتا ہے اس بعد سے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف لڑائی اور جھگڑے کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ڈوگر کورٹس سے لیکر ثاقب نثار اور ثاقب نثار سے لیکر بندیال کورٹس تک جو بھی اعلیٰ ترین عدالت کو جتنا زیادہ ذلیل کرنے کا حصہ ڈال سکتا تھا اس نے حصہ ڈالا اس دوران چند جج صاحبان نے اعتراف بھی کیا کہ ہمیں پریشرائز کر کے اپنی مرضی کے فیصلے لئے گئے جس سے رہتی سہتی تھوڑی بہت جو عزت تھی وہ بھی ختم ہو گئی۔ معزز جج صاحبان دن بدن متنازعہ ہوتے چلے گئے اور اس میں سوشل میڈیا کی مادر پدر آزادی کا بھی بہت بڑا حصہ تھا لیکن اس سب کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام پہلوو¿ں میں معزز جج صاحبان کا بہت قصور ہے جیسا کہ آج کل لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج صاحب کے بیٹے کی شادی کی ویڈیو وائرل ہے اور اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح روپئے کی بے رحمی سے تذلیل کی جا رہی ہے اس سے پہلے عدالت عالیہ ایک معزز صاحب ہر ہفتے اسلام آباد سے لاہور جاتے تھے اور ہر ہفتے ہی اوور سپیڈ کی وجہ سے موٹر وے پر چلان کرواتے تھے اور پھر ایک دن ان کی قانونی غیرت نے جوش مارا اور موٹر وے پولیس کو سپریم کورٹ میں طلب کر لیا گیا اور موٹر وے پولیس کو اچھی طرح باور کروایا گیا کہ قانون میرے گھر کی لونڈی ہے اسی طرح آپ کو اکثر پولیس والے نظر آئیں گے جو قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں پھر تمام اسمبلی ممبران بھی اپنے آپ کو ملکی قوانین سے بالا تر سمجھتے ہیں جس کا جتنا ہاتھ پڑتا ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق قانون کو اپنی لونڈی بنایا ہوا ہے کبھی کبھی تو میرا دل بھی کرتا ہے کہ ایک لونڈی کسی طرح میں بھی لے لوں مگر میری تمام معزز جج صاحبان سیکیورٹی اداروں کے افسران ، کارکنان اور پارلیمنٹیرینز سے گذارش ہے کہ اپنا اپنا منصب دیکھیں اور سوچیں کہ اللہ پاک نے دنیا میں کتنے بڑے انعام سے نوازا ہے منصف ہونا اور قانون کا رکھوالا ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے آخر میں تمام عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ آئیں ہم سب مل کر قانون کی اس لونڈی کو آزاد کرائیں

ای پیپر دی نیشن