کشمیر سے فلسطین تک مظالم اور غیر مسلم کا واویلا

 کشمیر سے فلسطین تک مظالم اور غیر مسلم کا واویلا
ثاقب حسن لودھی
Saqiblodhi1@gmail.com 
1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد جس افراتفری، بد امنی اور بے چینی کی بنیاد مشرق وسطی میں رکھی گئی تھی آج دنیا اس کے بھیانک نتائج بھگت رہی ہے۔ حال ہی میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر پہلی بار ایک ہی وقت میں بری، بحری اور فضائی حملے کیے گئے۔ یہ حملے اتنے شدید تھے کہ خود اسرائیلی حکومت، افواج اور انٹیلی جنس ادارے اس کے تدارک کے لیے تیار نہ تھے۔ بلاشبہ حماس کی جانب سے یہ حملے اس غم و غصے کا اظہار ہیں جو اسرائیل کی ریاست کی جانب سے مظالم ڈھانے کی صورت میں فلسطینیوں میں موجود ہے۔ آج یہودی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہودیت اورصیہونیت کا آپس میں کوئی تعلق نہ ہے۔ بظاہر تو یہ ایک نئے ہولوکاسٹ کا خوف معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہودی اپنے آپ کو اپنی ہی ریاست سے الگ تھلگ ظاہر کرنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے آواز بلند کرتا نظر آ رہا ہے۔ کیا ہی زبردست منافقت ہے۔ 
غزہ پر اسرائیلی جارحیت،کیمیائی ہتھیار وں کے استعمال اور خوراک کی بندش سے ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیاہے اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے منصوبے کے تحت وحشیانہ بمباری کر رہا ہے،امت مسلمہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی قرض دار ہے۔ ناجائز صہیونی ریاست کے کرتا دھرتا پچھلے پجھتر سال سے فلسطنیوں کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کی تکمیل کےلئے نہتے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کررہے ہیں،مسجد اقصیٰ، مغربی کنارہ، جنین، یروشلم اور غزہ پر مستقل حملے جاری ہیں جسکے نتیجے میں بچوں اور عورتوں سمیت سینکڑوں لوگ شہید اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں،پچھلے10 دن کے دوران مسلمانوں پر6 ہزار ٹن وزنی تقریبا چھ ہزار بم گرائے جاچکے ہیں جو دنیا میں انسانی حقو ق کے علمبرداروں کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کےلئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عرب لیگ اور سعودی عرب کو مشرق وسطی میں اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہوکر اسرئیل کے خلاف اقدامات کرنے چاہیے،یورپی یونین اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مشرق وسطی کو پر امن بنانے کیلئے فلسطین کے ساتھ انصاف کریں،فلسطین سے اسرئیل کاناجائز قبضہ ختم کراکر دنیا کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے اسرائیل کا جنگی جنون دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، مسلم ممالک اسرائیلی جارحیت کے خلاف یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیں اور فلسطین سے اسرئیل کا غاصبانہ قبضہ فوری ختم کرانے کیلئے کردار ادا کریں،اسرائیل ناجائز ریاست ہے، اسرائیلی اقدامات انسانی حقوق، بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کے خلاف ہیں۔ غاصب اسرائیل غزہ فلسطین میں مسلمانوں کا قتل عام کررہا ہے۔ جب کہ امن عالم کی دعوے دار سپر طاقتیں اور اقوام متحدہ فلسطین میں برپا ہونے والے مظالم پر خاموش ہی نہیں بلکہ ظالم اسرائیل کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ مسئلہ فلسطین و کشمیر میں اقوام متحدہ کا کردارہمیشہ جانبدارانہ رہا ہے۔ لاکھوں فلسطینی مرد ، خواتین بچے شہید ہو چکے ہیں، فلسطینی نسل در نسل آزادی کی جنگ جرات و استقامت کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ عالمی ادارے اسرائیل کی ناجائز سرپرستی کر کے پوری دنیا کے امن کو تباہ کر رہے ہیں۔اسلامی ممالک خواب غفلت سے بیدار ہوں،فلسطین کے مسئلہ کو دوٹوک اور مضبوط مف اپنایا جائے،،نیتن یاہو درندہ صفت اور انسانیت سے عاری شخص ہے جو معصوم بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے،اسرائیل کا منصوبہ فلسطینیوں کی نشل کشی اور مسجد اقصی کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر ہے جسے ہم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ امت مسلمہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی قرض دار ہے....جب ہم کہتے ہیں کہ اسلام اور دہشت گردی کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے تو مسلمانوں کے خلاف عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور فلسطین میں امریکی افواج ''بہادری کی داستانیں '' رقم کرتی ہیں اور اسلامو فوبیا کے خلاف ایک منظم انداز میں بھارت، اسرائیل اور یورپ اکھٹے نظر آتے ہیں۔ لیکن اب حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد بات اسرائیلی ریاست سے آگے نکل چکی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اب یہودیوں کو دنیا کے کسی ملک میں اپنی جگہ نظر نہیں آ رہی تو ایک نئی سوچ کے ذریعے دنیا کو یہ سکھایا جا رہا ہے کہ یہودیت اور صیہونیت دو الگ الگ چیزیں ہیں اور یہود ایک پرامن قوم ہے جو عرصہ دراز سے عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ امن سے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہود مت کے پیرو کار اس بات پر دنیا کو قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ یہودیوں کا اسرائیلی ریاست کے ظالمانہ اقدامات سے لینا دینا نہیں ہے اور وہ فلسطینیو ں کے لیے ایک الگ ریاست کے خواہاں ہیں۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ یہودیوں کی اپنے آپ کو با نے کے لیے ایک نئی سازش کا آغاز ہے ورنہ اس طرح یہودیوں کی جانب سے مسلمان فلسطینیوں کے لیے آواز 1973 کی کپوار جنگ کے بعد بلند ہو چکی ہوتی۔ یاد رہے کہ 1973 کی جنگ کے بعد ہی اسرائیل نے غزہ پٹی اور بیت المقدس پر مکمل قبضہ کیا تھا۔ 
لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ اپنا تشخص بحال کرے اور ایک ہی پلیٹ فارم سے مشترکہ حکمت عملی کے تحت اسلامو فوبیا اور کشمیر سے فلسطین تک ہونے والے مظالم کے خلاف یک آواز نظر آئے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ذاتی مفادات کی بجائے امہ کے مفادات کو ترجیح دی جائے۔ ایران اور سعودی عرب لیڈر بننے کی دوڑ چھوڑ کر مسلم امہ کو یکجان کرنے کے لیے مخلصانہ کوششوں کا فوری آغاز کریں۔ دوسری جانب پاکستان کے پالیسی سازوں کے لیے بھی اسرائیل فلسطین تنازعہ میں سبق موجود ہے کہ جب تک ہم خود کو ہر لحاظ مضبوط نہیں کریں گے تب تک دنیا ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔ اب کشمیر کے لیے بھی عملی جدو جہد کا وقت آگیا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان معاشی و عسکری لحاظ سے واضح موقف کے ساتھ مسلم امہ کو لیڈ کرے۔ معاشی طور پر مضبوط پاکستان ہی مسلم امہ کو اکھٹا کرنے کے قابل ہو سکتا ہے لہذا بین الا قوامی اداروں کی جانب سے قرض سے جان چھڑا کر ایسے منصوبوں پر توجہ مرکوز کی جائے جن سے طویل المدتی فوائد حاصل ہو سکیں۔

ای پیپر دی نیشن