کالم:لفظوں کا پیرہن
تحریر:غلام شبیر عاصم
موت کے فرشتے نظر آرہے ہیں
رات کے دو بجے کا وقت ہوچکا ہے،شہر کی بتیاں اور لوگوں کے ذہنوں کے دریچے بند ہوچکے ہیں،اکثر لوگ نیند کی وادی میں خواب دیدہ ہیں۔ہر سمت ہ±و کا عالم ہے یقیناً اکثر انسانوں پر نیند طاری ہوچکی ہے۔مگر مجھے نیند نہیں آرہی۔کروٹیں بدل رہا ہوں،سونے کی مسنون دعا پڑھ کر ایک بار تو آنکھیں بند بھی کرچکا لیکن دوبارہ آنکھیں کھل گئی ہیں۔مجھ پر خماری یا اونگھ طاری نہیں ہو رہی۔موبائل پر گوگل سے ای پیپر کھول کر کالم پڑھنے شروع کردئیے ہیں۔میرے دماغ میں کوئی بھی ایسا فکر و اندوہ نہیں کہ جس کی وجہ سے رات گئے نیند کا پرندہ دماغ کےگھونسلے سے باہر بھٹکتا پھڑپھڑاتا پھرتا رہے۔آج میں نے دوپہر کے وقت قیلولہ میں اپنے حصے کی ساری نیند پوری کرلی تھی شاید اس لئے آنکھوں میں نیند کے قافلے نہیں اتر رہے،اور میں بے خوابی کے ویران صحرا میں نہ جانے کیسے کیسے حسین خوابوں سے محروم بھٹکتا پھر رہا ہوں۔میں اپنے حصے کا سو چکا ہوں۔مگر پھر بھی نیند کی خواہش رکھتا ہوں۔کیونکہ رات کو بندہ جاگتا رہے تو خواہشیں،حسرتیں اور مایوسیاں انسان کو گھیر لیتی ہیں۔رتجگے کے چٹیل میدان میں مجھے اس فکر کے بھی بڈاوے اور"ب±ھوتنے" ڈرا رہے ہیں کہ رات کے آخری پہر میں مجھے نیند آ بھی گئی تو صبح کے وقت"کار ہائے زیست"کو انجام دینے میں ناکام رہوں گا۔جسم بوجھل بوجھل سا رہے گا۔ہوش و حواس نیند کا شکار ہوجائیں گے۔گویا اب ان لمحات کی بے فکری آنے والے کل کے لئے ممکنہ تفکر و پریشانی کا آہستہ آہستہ روپ دھارنے لگی ہے۔بے خوابی کے اس ویرانے میں اب مجھے اچانک اس ایک سوچ نے مسلح راہزن کی طرح روک لیا ہے،کہ وہ غم کے مارے لوگ رات بھر کس کرب میں تڑپ رہے ہوں گے جن کے دل و دماغ اس وقت واقعی کسی پریشانی کی زد میں ہیں،اور نیند کے دریا میں جال پھینکنے سے بھی نیند ان کی دسترس سے باہر ہے اور وہ بے خوابی کا شکار ہوکرکچھ دیر سونے کے لئے چارپائی پر بے خوابی کے جال میں ہاتھ پاوں ماررہے ہوں گے۔اور ناقابل برداشت کرب سے گزر رہے ہوں گے۔اسی سوچ سے جڑی ہوئی بات ہے کہ چند روز پہلے میرے ہمسایہ کو 10 ہزار روپے بجلی کا بِل آیا ہے۔وہ غریب بیماری کے باعث کوئی بھی مزدوری کرنے سے قاصر ہے،اور اس کی بیوی لوگوں کے گھروں میں کام کرکے اپنا،اپنے خاوند اور تین بیٹیوں کا پیٹ پالتی ہے۔وہ دو تین بلب اور ایک پنکھے کا 10 ہزار روپے بِل کیسے ادا کریں گے۔یہ سوچ کر میرا دل پسیج گیا ہے۔ناقابلِ برداشت بِل کا یہ دکھ ان کو رات بھر جگا رہا ہوگا۔وہ تو دن بھر نہیں سوئے، ان کو تو دن بھر کی بدن توڑ اور اعصاب شکن مشقت کی وجہ سے نیند آنی چاہئیے لیکن ان کی نیند تو اڑگئی ہوگی۔بِل کی عدم ادائیگی کی پریشانی اڑدہا بن کر بار بار انہیں ڈس رہی ہوگی۔اگر ان کی بجلی کی تار کٹ گئی،میٹر اتارلیا گیا تو ان غریبوں پرکیا گزرے گی۔دوبارہ میٹر کب اور کیسے لگ سکے گا۔بجلی کی سپلائی کیسے میسر ہوگی،یہ کون سوچے گا۔مہنگائی کے یہ تازیانے تو عوام گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل برداشت کررہے ہیں۔ناجائز بلوں کے ستائے ہوئے لوگوں کے احتجاجی مظاہرے کرنے سے حکومت بجائے شرمندہ ہونے کے مزید ڈھیٹ اور"لِیچڑ"ہوگئی ہے۔ نگران حکومت سے عوام نے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ مہنگائی کم ہوگی،مگر نگران حکومت نے آتے ہی عوام کو مسائل کی دلدل میں اتار کر اپنی بے حسی کی انتہا کردی جس سے عوام میں مایوسی اس قدر بڑھ گئی کہ خودکشی کے کئی واقعات بھی رونما ہوئے۔عوامی واویلا کا حکومت پر صرف اتنا اثر ہوسکا کہ ایک شے سستی کرکے دو چیزیں مہنگی کردی گئیں اور اس چالاکی کو بھلا کوئی"ریلیف"کیوں خیال کرتا۔عوام بے چارے اپنے تئیں یہ خیال کرتے رہ گئے کہ نگران حکومت تو شاید اس نگرانی کے لئے آئی ہے کہ جانے والے حکومتی ٹولے نے مہنگائی پیدا کرکے عوام کے کان پکڑوا کر انہیں جو مرغا بنایا تھا، عوام کہیں کان چھوڑ ہی نہ دیں،مزید یہ کہ نگران حکومت صرف اس نگرانی کے لئے آئی ہے کہ عوام کو سابق حکومتی گروہ نے حالات کی تلخی کی دھوپ میں ایک ٹانگ پر کھڑا کیا تھا کہیں یہ عوام تھکن کے مارے ٹانگ اوپر نیچے نہ کر لیں۔اب چند اشیائ کی قیمتوں میں ہونے والی تھوڑی سی کمی گھٹن کے عالم میں ہوا کے جھونکا کی طرح محسوس ہوئی ہے۔دیکھتے ہیں کہ اب چند اشیاءکی قیمتیں کم کرکے چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے یہ ریلیف عوام کی جھولی تک پہنچایا جاتا ہے کہ نہیں۔ بجلی،پٹرول اور دیگر اشیائے ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کمی والی خبروں پر اگر چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ عمل میں نہ لایا گیا تو مہنگائی میں کمی کی یہ خبریں چیل کووں کی طرح فضا ہی میں پر مارتی رہ جائیں گی،اور عوام آسمان کی طرف منہہ اٹھائے دیکھتے رہ جائیں گے۔ہمارا کلچر بن گیا ہے کہ قیمتوں میں کمی کا اعلان تو ہوتا ہے لیکن عوام کو پھر بھی اسی تکلیف دہ صورت حال کا سامنا رہتاہے۔تا حال تو یہی سچ ہے کہ زندگی سزا بنا دی گئی ہے۔صحت بخش اشیائے خورد و نوش ملاوٹ کی وجہ سے مضر صحت بنادی گئی ہیں۔کوئی شے خالص نہیں،ادویات میں بھی ملاوٹ کردی گئی ہے۔مریض بھی اب دوائی کھاتے ہوئے کئی بار سوچتا ہے کہ شفا کے بدلے جان ہی نہ چلی جائے۔ خفیہ طور پر تقریباً ہر شخص اور ظاہری طور پر ہر دوسرا تیسرا شخص کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے۔انسانوں میں اب قوت مدافعت رہی ہی نہیں،پھر بھی لوگ وقت کے ساتھ چلنے کے لئے خود کو گھسیٹتے پھرتے ہیں۔دوائی نہیں کھاتے پیٹ بھرنے کے لئے دال دلیا کے چکر میں صبر اور ہمت سے کام لیتے ہوئے جان بوجھ کر جسم میں بیماریوں کو ساتھ ساتھ لئے پھررہے ہیں۔ہر شخص بے بس اور تنہا ہوکے رہ گیا ہے۔سب کو مایوسیوں نے گھیر رکھا ہے،گویا سارے کا سارا ملک عالم سکرات میں ہے،خدا کرے کہ نگران حکومت کے مہنگائی کم کرنے کے اعلانات سچ ثابت ہوں ورنہ اب حالات یہ ہیں کہ موت کے فرشتے نظر آرہے ہیں۔اب تو یہی انتظار ہے کہ کب قیامت آئے گی،حشر برپا ہوگا اور"رسی دراز کئے گئے مجرموں کے گلے میں کب عدلِ الٰہی کی رسی کا منظر دیکھیں گے اور ہم مظلوم عوام کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگا۔