کسی بڑے لیڈر نے ایک بار کہہ دیا تھا پاکستان میں بارہ موسم ہوتے ہیں اور پھر اس کے چاہنے والے بارہ موسموں کی گنتی پوری کرنے میں لگ گئے۔ ویسے اگر ہم گننا شروع کریں تو موسموں کی یہ گنتی درجن سے بڑھ بھی سکتی ہے۔ قدرتی موسموں کے علاوہ یہاں کئی موسم آتے ہیں جیسے سیاست کا موسم، شادیوں کا موسم ،آجکل ملک میں جو موسم چل رہا ہے اسے کرکٹ کا موسم کہتے ہیں اس موسم میں ایک مرض بخار کی صورت میں انتہائی تیزی کے ساتھ پھیل جاتا ہے جو بچوں،بزرگ خواتین سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اسے کرکٹ کا بخار کہتے ہیں،خوش قسمتی سے گزشتہ کئی سالوں سے اس مرض پر جلد قابو پایا جانے لگا ہے اور اس کا سہرا جاتا ہے ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے سر ،جو ہار کا ایک ایسا انجیکشن لگادیتی ہے کہ کروڑوں لوگوں کا بخار اس ایک انجیکشن سے بھاگ جاتا ہے اور وہ پہلے جیسی نارمل زندگی کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔ایسا تو اب دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ کرکٹ بخار کے پھیلاو¿ میں ہمارے میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے جو ریٹنگ اور اشتہارات کیلئے کرکٹ کے جنون کا وائرس پھیلانے میں صبح ،شام ،دن ،رات ایک کردیتا ہے اور یوں جو نہیں دیکھنا چاہتے وہ بھی دیکھنے لگ جاتے ہیں اور اس بخار کا شکار ہوجاتے ہیں پھر جب ہماری ناقابل شکست بنا کر پیش کی جانیوالی ٹیم کی بدترین شکست کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں تو اس کے بعد عوام بیچارے سوشل میڈیا میمز بنا بنا کر اپنا دکھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک گروپ سامنے آجاتا ہے جو یہ ثابت کر ڈالتا ہے کہ میچ تو فکس تھا ورنہ ہم کیسے کسی سے ہار سکتے ہیں۔ اور اس کیلئے بڑے مزے مزے کی وجوہات بھی سامنے لا رکھتا ہے ،ایک گروپ اپنے ناپسندیدہ کھلاڑیوں کو نشانے پر رکھ لیتا ہے اور ان پر دل کی بھڑاس نکال ڈالتا ہے ،کچھ لوگوں کو یاد آجاتا ہے کہ ہمارا قومی کھیل تو ہاکی ہے کرکٹ سے کیا لینا۔ چلیں یہ اچھی بات ہے ہمیں یہاں ہاکی تو یاد آجاتی ہے ،وہی ہاکی جس نے دنیا میں پاکستان کو متعارف کرایا ہم تو اسے بھول ہی گئے تھے۔ کرکٹ کا ایک 92 والا ورلڈ کپ ہمیں بھولنے نہیں دیا جاتا۔ ہاکی میں تو ہم نے ورلڈ کپ کئی بار جیتا۔ ہمارے کرکٹ بورڈ کا لوگو ہے۔ ون نیشن ون پیشن، ایک قوم ایک جذبہ ،یعنی ایک قوم ایک کھیل ، بات بالکل درست ہے ہم ایک کھیل کھیلنے والی قوم بن کر رہ گئے ہیں، کرکٹ پاکستان میں اس حد تک مقبول کیا جاچکا ہے کہ اس ملک میں باقی کھیلوں کا وجود ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ کرکٹ میں پیسہ، مقبولیت اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ یہ باقی تمام کھیلوں کو کھا گیا ہے۔ اس وقت سینٹرل کنٹریکٹ میں اے کیٹیگری کے ایک کھلاڑی کو نصف کروڑ تک ماہانہ دیا جارہا ہے جبکہ پارلیمانی کمیٹی میں سامنے آنیوالی ایک رہورٹ کے مطابق ہاکی فیڈریشن کو سال بھر میں دی جانیوالی فنڈنگ لاکھوں میں بنتی ہے۔ ہاکی ٹیم کو ایشیا کپ کیلئے ڈھائی کروڑ روپے دئیے گئے اتنے تو ہمارے تین چار ٹاپ کرکٹرز کو بغیر کھیلے گھر بیٹھے ماہانہ مل جاتے ہیں، یہ تو قومی کھیل کا حال ہے باقی کھیل تو اگر کوئی بچہ کھیلتا ہے تو گھر والے ہی روک دیتے ہیں کہ اس میں کوئی مستقبل نہیں کرکٹ کھیلو۔ اور اگر کوئی اپنے شوق اور جذبے کو برقرار رکھتا ہے تو اپنے خرچے پر۔ ایسے کھلاڑی بغیر کسی مدد سپورٹ اور مالی معاونت کے عالمی ٹورنامنٹ بھی جیت جاتے ہیں لیکن میڈیا میں ایک خبر اور مبارکباد کی کسی اعلی حکومتی شخصیت کی ٹوئٹ آجاتی ہے اور سوشل میڈیا کی کسی پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیچارے تو قرض لے کر ٹورنامنٹ کھیلنے گئے تھے۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کھیل اب کھیل نہیں رہا انڈسٹری بن چکا ہے ،دنیا بھر میں روزگار کا بڑا ذریعہ ہے۔ بھاری سرمایہ کاری کھیلوں میں آرہی ہے اس سے کئی شعبے اور کاروبار وابستہ ہوچکے ہیں صرف کھلاڑیوں کو نہیں ہزاروں لاکھوں لوگوں کو کھیل سے کاروبار اور روزگار کے زرائع میسر آتے ہیں لیکن آپ سوچیں آپ نے کرکٹ کے علاوہ کوئی اور کھیل کب دیکھا، اپنے قومی کھیل ہاکی کا کوئی میچ آخری بار کب دیکھا تھا بات یہ ہے کہ ہمیں کرکٹ کے علاوہ کچھ اور دکھایا ہی نہیں جاتا تو کوئی اور کھیل فروغ کیسے پاسکے گا وجہ یہ ہے کہ کرکٹ کو اشتہارات ملتے ہیں اور اشتہارات سے پیسہ،کرکٹ کھیلنے والے بڑے ملکوں کو دیکھ لیں انگلینڈ، آسڑیلیا، بھارت وہاں دوسرے کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں ان کو فروغ دیا جاتا ہے ان کے کھلاڑیوں کو بھی پیسہ اور شہرت ملتی ہے،گزشتہ دنوں چین میں ایشیائی کھیل منعقد ہوئے اس کا میڈل چارٹ ہی دیکھ لیں پاکستان کہاں ہے ایک چاندی اور دو کانسی کی تمغے اکتالیس ملکوں میں اکتیسویں پوزیشن، افغانستان سے بھی پیچھے تو یقینا ًپاکستان کرکٹ ٹیم کا شکریہ تو بنتا ہے جو ہمیں وقتا فوقتا ہار کا انجیکشن لگا کر کرکٹ کا بخار اتار دیتے ہیں اور میمز میں ہی سہی ہمیں یہ تو یاد آجاتا ہے کہ کرکٹ کے علاوہ اور بھی کھیل ہیں اور کرکٹرز کے علاوہ اور بھی کھلاڑی اور ہمارا قومی کھیل تو ہاکی ہے۔
٭....٭....٭