اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیرقانونی قرار دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملہ نیپرا ایپلٹ ٹریبونل کو بھیج دیا۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ غیر قانونی قرار دینے کا فیصلہ آئینی و قانونی طور پر قابل عمل نہیں، نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل میں صارف کمپنیاں 15 دن میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے خلاف اپیلیں دائر کریں، نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل 10 دن میں اپیلیں مقرر کرے۔ نیپرا اپیلیٹ ٹریبونل جلد از جلد قانونی میعاد کے اندر اپیلوں پر فیصلہ کرے۔ لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ قبل ازیں عدالت میں وکیل کمپنیز سلمان اکرم راجا نے کہا کہ مئی 2022 میں جب فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ لگایا گیا تب نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تھی۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیپرا کی تشکیل غیر آئینی تو جج کو اس پر فیصلہ دینا چاہئے تھا، لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے اپنے اختیار سے باہر نکل کر فیصلہ دیا جس کو برقرار رکھنا ممکن نہیں، ہائیکورٹ کے ججز آرٹیکل 199 پڑھنا بھول جاتے ہیں، کیا ہائیکورٹ کا جج یہ کہہ سکتا ہے کہ 500 یونٹ بجلی استعمال پر بل یہ ہو گا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ سمیت کوئی بھی عدالت نیپرا کے تکنیکی معاملات نہیں دیکھ سکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ نے وہ فیصلہ دیا جس کی درخواستوں میں استدعا ہی نہیں کی گئی تھی، بہتر ہو گا تکنیکی معاملات نیپرا کے سامنے ہی اٹھائے جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیپرا اور ڈسکوز کو ٹربیونل میں معاملہ چیلنج کرنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ بعدازاں بینچ نے ایک ہزار90 درخواستیں نمٹا دیں۔ خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے رواں سال فروری میں بجلی کے بلوں میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور فیصلے کے خلاف بجلی کی ترسیل کی کمپنیوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔