واشنگٹن+ غزہ+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ خبر نگار) امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ بڑی غلطی ہو گی، حماس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطینی صدر نے حماس کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے اقدامات فلسطینیوں کی ترجمانی نہیں کرتے۔ اسرائیل کے نئے وزیر گڈیون سار نے جنگ کے اختتام پر غزہ کو مزید چھوٹا کرنے کی دھمکی دے دی۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ حماس نے 155اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اب تک فلسطینیوں کی شہادتیں 3 ہزار سے بڑھ گئیں جبکہ 9600 زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب شہر خان یونس کے ایک گھر پر حملے میں ایک ہی خاندان کے 17 افراد شہید ہوگئے ۔ جبکہ ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 1400سے زیادہ ہو گئی ہے۔ دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے حملوں میں ہلاک امریکیوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے اور 13 امریکی اب تک لاپتا ہیں۔ اسرائیلی فوج کے مطابق حماس نے 155 اسرائیلیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس سے قبل یرغمالی اسرائیلیوں کی تعداد 126 بتائی گئی تھی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ پانی، غذا اور ادویات کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یو این ایجنسی نے ہنگامی امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ لگتا ہے دنیا انسانیت کھوچکی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حقیقی تباہی پانی اور ایندھن ختم ہونے کے بعد شروع ہو گی۔ ریڈ کریسنٹ کا کہنا ہے کہ ہسپتال چلانے کےلئے صرف آج کا ایندھن باقی رہ گیا۔ ہسپتالوں اور پناہ گزینوں کے مراکز پر بھی حملے کیے جارہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق غزہ میں مصروف ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے سے لاشیں نکالنے کا سلسلہ جاری ہے تاہم ایک ہزار سے زائد لاپتا فلسطینیوں کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ خلیجی میڈیا کے مطابق اسرائیلی فوج نے اتوار کی رات مغربی کنارے پر چھاپہ مار کر درجنوں فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے۔ جس کے بعد گرفتار فلطسینیوں کی تعداد 600 ہوگئی ہے۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے متعدد فلسطینیوں کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا۔ علاوہ ازیں رفاہ کی سرحد بند ہونے سے سیکڑوں افراد اب بھی سرحد پر ہی موجود ہیں۔ جبکہ ترکیہ اور اردن کی جانب سے بھیجی جانے والی امداد بھی سرحد بند ہونے کی وجہ سے پھنسی ہوئی ہے۔ ادھر امریکی صدر جوبائیڈن کے دورہ اسرائیل کا بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے تاہم ابھی اس بات کا باضابط اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ ڈر کے مارے بھاگ کھڑی ہوئی۔ تل ابیب میں پارلیمنٹ کا سیشن جاری تھا کہ غزہ سے راکٹ حملوں کی وجہ سے سائرن بجتے ہی قابض کنیسٹ کے ارکان سیشن ختم کرکے بھاگ گئے۔ غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کرگیا جہاں اسرائیلی حملوں میں 10 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے 250 نہتے فلسطینیوں کو دھوکے سے قتل کرنے کے مناظر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ صیہونی فضائیہ نے غزہ کے عرب نیشنل ہسپتال پر بھی حملہ کردیا جس میں کئی ڈاکٹر شہید ہوگئے جب کہ رفاہ کراسنگ میں موجود ہسپتال کو بھی خالی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے اتوار کے روز حملوں میں حماس کمانڈر معیتاز کو شہید کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ غزہ کے 21ہسپتالوں کو خالی کرنے کے احکامات بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ اگر لبنان اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر جھڑپیں بڑھیں تو زیادہ شہریوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا حکم محصور پٹی کے ہسپتالوں میں زیرعلاج بچوں سمیت2 ہزار سے زائد زخمی فلسطینیوں کے لیے سزائے موت ثابت ہو سکتا ہے۔ او آئی سی رکن ممالک کی پارلیمانی یونین (پی یو آئی سی) کے زیر اہتمام ہنگامی ورچوئل اجلاس میں پاکستان کی جانب سے سینیٹرز نزہت صادق، فیصل سلیم رحمان، ثناءجمالی، اور ڈائریکٹر جنرل (کوآرڈینیشن) سینٹ، میر شے مزار بلوچ نے شرکت کی۔ فلسطینی عوام پر اسرائیلی بمباری اور قتل عام پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ شرکاءممالک نے اقوام متحدہ سے اپیل کی کہ وہ مداخلت کرے اور اسرائیلی افواج کی جانب سے بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں کو روکے۔ شدید انسانی بحران سے بچنے کیلئے غزہ کی پٹی میں پانی، خوراک اور انتہائی ضروری امدادی سامان کے داخلے کو یقینی بنایا جائے۔ فلسطینی سرزمین پر ناجائز اسرائیلی قبضہ فوری طور پر ختم کیا جائے۔ شرکاءنے واضح طور پر اسرائیلی بمباری کو جنگی جرم قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ سعودی عرب اور مصر کے دورے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑگیا۔ گزشتہ روز سعودی عرب کے وزیراعظم و ولی عہد محمد بن سلمان سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ریاض میں ملاقات کی تھی۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پہلے تو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کو ملاقات کے لیے گھنٹوں انتظار کروایا اور پھر اگلی صبح (اتوار) کو ملاقات کی تو زور غزہ کے معصوم فلسطینیوں کا قتل رکوانے پر دیا۔ سعودی ولی عہد نے سخت پیغام دیتے ہوئے غزہ میں فوجی آپریشن روکنے اور غزہ کا اسرائیلی محاصرہ ختم کروانے پر زور دیا۔ اسرائیل کو چاہیے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کرے، پانی، بجلی اور ایندھن فراہمی بحال کرے۔ ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ سعودی ولی عہد سے آگے بڑھنے کے لیے کئی اچھی تجاویز پر بات ہوئی ہے۔ مصر نے امریکیوں کیلئے رفاہ بارڈر کھولنے سے انکار کر دیا۔ مصر نے رفاہ بارڈر کھولنے کو امداد بھجوانے سے مشروط کر دیا۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو سے ملاقات بھی کی۔ فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کرنے کے خیال کو صاف طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک اسرائیل حماس سے لڑ رہا ہے فلسطینیوں کی ان کے ملک سے بے دخلی ناقابل قبول ہے۔ انٹرویو میں کہا کہ میں نے فلسطینی صدر محمود عباس اور خطے کے تقریباً تمام دیگر رہنماﺅں کو براہ راست سنا ہے۔ کوئی بھی ملک غزہ سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو قبول نہیں کرتا۔ یہ آئیڈیا ناکام ہونے والا ہے، اس لیے ہم اس کی حمایت نہیں کرتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو غزہ میں اپنے گھروں میں رہنے کے قابل ہونا چاہیے‘ وہ خطرے سے باہر ہوں اور انہیں وہ مدد ملے جس کی انہیں ضرورت ہے۔ دوسری جانب مصر میں فلسطینی سفیر دیاب اللوح نے انکشاف کیا کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 30ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوگئے۔ 12 لاکھ سے زیادہ شہری بے گھر ہیں اور14 سے زیادہ ہسپتال ملیامیٹ کر دیے گئے ہیں۔ غزہ کی پٹی کی صورتحال بہت سنگین ہے۔ ہمارے پاس مرنے والوں کی لاشوں کو دفنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ برطانوی اخبار کے مطابق انسانی حقوق کی بعض تنظیموں کے مطابق یہ اقدام جبری منتقلی کے جنگی جرم کے مترادف ہوسکتا ہے، حکم سے 20لاکھ سے زائد افراد کی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ حماس کی پالیسیاں اور اقدامات فلسطینی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ محمود عباس نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو سے فون پر گفتگو میں کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی پالیسیاں اور پروگرام فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کی سلامتی کیلئے جنگ جاری ہے، ہر قسم کی کوتاہی کی تحقیقات کی جائے گی۔ ایران اور حزب اللہ اسرائیل کے صبر کا آزمانے کی کوشش نہ کریں۔ ایرانی وزیرِ خارجہ نے اسرائیل اور امریکا دونوں کو خبردار کیا ہے کہ فلسطین میں صورت حال بگڑی تو ایران خاموش تماشائی نہیں رہے گا۔ غزہ جنگ کا دائرہ وسیع ہوا تو امریکا کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایران کے وزیرِ خارجہ سے غزہ کی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے چینی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو اب تک ریاست کے حق سے محروم رکھنا موجودہ صورت حال کی بنیادی وجہ ہے، اس تاریخی نا انصافی کو ختم کرنا ہو گا۔ ترک وزیرِ خارجہ سے گفتگو میں چین کے وزیرِ خارجہ نے اسرائیل اور حماس سے جنگ بندی پر زور دیا ہے۔ دوسری طرف برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اسرائیل فلسطین تنازع پر پارلیمنٹ میں بیان میں کہا ہے حماس کے اسرائیل پر حملے میں 6 برطانوی ہلاک اور دس لاپتہ ہیں۔ تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ پولیس نفرت انگیز جرائم‘ حماس کی ستائش کرنے والوں سے پوری طاقت سے نمٹے گی۔ مصر کے صدر عبدالفتاح الیسی نے ”یہودی“ ہونے کے بیان پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پرتنقید کرتے کہا ہے کہ خود کو یہودی کہہ کر ان کا دکھ سمجھنے کے دعویدار ہیں۔ میں مصر میں یہودیوں کے درمیان پلا بڑھا ہوں یہاں یہودی کسی قسم کے ظلم کا نشانہ نہیں بنے۔ایران اور چین کے وزراءخارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ غزہ میں صورتحال بگڑی تو خاموش تماشائی نہیں بنیں گے۔ جنگ بڑھی تو امریکہ کو بھاری نقصان ہوگا۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔ ترجمان چینی محکمہ خارجہ کے مطابق چین اسرائیل فلسطین مسئلے کے حل کیلئے اپنا وفد مشرق وسطیٰ بھیجے گا۔ علاوہ ازیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیل کے دورے میں اسرائیلی صدر اسحاق ہرزونگ سے ملاقات کی۔ انٹونی بلنکن نے اس حوالے سے کہا کہ ملاقات میں اسرائیل کو امریکی مدد اور حمایت کا یقین دلایا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیلی وزیر دفاع سے بھی ملاقات کی۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ یہ جنگ طویل ہونے والی ہے اور اس کی قیمت بھی بڑی ہو گی۔ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اسرائیل کو ہمیشہ امریکہ کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اسرائیل کا دفاع امریکہ کی ذمہ داری ہے۔