عہد حاضر کے بو علی سینا حکیم محمد سعید شہید

حکیم راحت نسیم سوہدری
شہید حکیم محمد سعید بیسویں صدی کی ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت کا نام ہے ،جنہوں  نے تعمیر واستحکام پاکستان کے لئے ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں ان کا نام اور کام ہماری قومی تاریخ کا عنوان جلی ہے - یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر شہید حکیم محمد سعید نہ ہوتے تو آج پاکستان میں طب کا وجود ختم ہو چکا ہوتا ،انکی مساعی سے ہمارے معاشرے میں نہ صرف طب کو حیات نو ملی بلکہ ترقی و فروغِ طب کے لیے انکی انتھک جدو جہد سے طب کو سرکاری مقام ملا۔عالمی ادارہ صحت نے طب کو تسلیم کیا اور طب علمی و عالمی سطح پر موضوع فکر و تحقیق بنی۔ جسکا نتجہ یہ نکلا آج پوری دنیا فطرت کی طرف لوٹ رہی ہے اور طب کے میدان میں سبز انقلاب آرہا ہے۔
شہید حکیم محمد سعید کی زندگی مختلف اوصاف سے عبارت تھی ،صحافی،مفکر،ماہرِ تعلیم ،سیاح ،مصلح قوم،منتظم ،صنعت کار اور خادم ملک وملت تھے مگر ان کی بنیادی حیثیت اور تشخص طبیب اور طب کی تھی ،انہوں نے طب کے احیاء اور ارتقاء￿ کے لیے جو کام کیا اور جسطرح طب کا مقدمہ لڑا۔اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پوری دْنیا میں طب کا اساسی نظریہ علاج یعنی نباتات سے علاج زندہ ہو گیا ہے۔اس پر وہ بجا طور پر 
مجدد طب قرار پاتے ہیں۔ 
1947ء میں جب تقسیم ہند کے نتیجے میں مملکت پاکستان معرضِ وجود میں آئی ،تو انہوں نے نوزائیدہ مملکت اسلامی پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہجرت کی۔اس حوالے سے خْودان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خوشحال اور مطمئن زندگی کو ترک کر کے اس لیے ہجرت کی کہ وہ مزاجاً ہندوستانی حکومت کے وفادار نہیں رہ سکتے تھے ،پاکستان آئے اور نا مساعد حالات میں زندگی کا آغاز کیا اور طب کو اپنا میدان عمل بنایا ،اس راہ عمل میں چار جہتوں پر کام شروع کیا ،طبی دوا سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کر کے فروغ دینا ،طبی تعلیم کو معیاری بنانا ،مطب کے ذریعے طب کو رواج دینا اور اطباء کو متحد و منظم کر کے طب کو اسکا حقیقی مقام دلانا۔سب سے پہلے طبی دوا سازی کا ادارہ ہمدردقائم کیا۔پھر مطب ہمدرد بنائے ،انجمن ترقی طب موجودہ پاکستان ایسویسی ایشن فار ایسٹرن میڈیسن قائم کر کے اسکے اہتمام میں جامعہ طبیہ شرقیہ قائم کیا جو اب ہمدرد الجید کالج اف ایسٹرن میڈیسن کے نام عالمی معیار کی طبی تعلیم کا پہلا ادارہ ہے-جب ہمدرد ایک مستحکم اداہ بن گیا تو اسے وقف کر دیا اور خود مقاصد ہمدرد کے لیے وقف ہوگئے ،ہمدرد جلد ہی صنعت کے ساتھ ساتھ ایک قومی وطبی تحریک بن گیا ،طب پر علمی ،عالمی کانگریسوں کا اہتمام ،نادر و نایاب طبی کْتب کے تراجم ،طبی جرائد کااجرا کیا۔اسطرح ہمدرد کی شناخت ایک طبی تحریک کے طور پر ہوئی اور پوری دْنیا میں آواز طب بن گیا ،اس جدو جہدکیوجہ سے طب کو بہ نگاہ حقارت دیکھنے کا دْور ختم ہوا۔طب کی نشاۃ ثانیہ کا جو سلسلہ پاکستان سے شروع ہوا پوری دْنیا کا محبوب ٹھہرا ،طبی دوا سازی کا کام جدید سائنسی انداز سے ہو رہا ہے ،ہمدر دکے بعد دوسرے اداروں کے لیے راہیں ہموار ہوئیں اور طب کی ادویہ ہر جگہ دستیاب ہیں ،طبی تعلیم کا نظام باقاعدہ ہوااور طب کو فروغ ملا۔
شہیدحکیم محمد سعید طب کے لیے پوری دنیا گھومتے تھے ،اس لیے انکی فکر اور نظر بہت وسیع ہو گئی تھی،طب کو سرکاری حیثیت دِلانے کے بعد حکیموں ،ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کا مشترکہ پلیٹ فارم تذکار حکمت بنایا۔تذکار حکمت کے اس پلیٹ فارم سے اتحاد فکری کو فروغ ملا اور فنی تعصب ختم ہوا۔طب کی تعلیم اور تحقیق کو عالمی پیرا میٹرز کے مطابق بنانے کیلئے کام شروع کیا،وہ محض حکومت سے مطالبات کیخلاف تھے ،جو کام حکومت اور عوام کی مشترکہ کاوشوں سے ہوسکتا ہے ،اسمیں حصہ لینا فریضہ سمجھتے ،یہی وجہ ہے کہ طب کی تعلیم اور تحقیق کو عالمی پیرامیٹرز کے مطابق بنانے کا جوخاکہ آپکے ذہن میں تھا اسکو ہمدرد یونیورسٹی میں ہمدرد المجید کالج آف ایسٹرن میڈیسن کی صورت میں عملی جامہ پہنایا،جہاں سے اب ایم فل اور پی ایچ ڈی اطباء کرام فارغ التحصیل ہو کر خدمت خلق خدا میں مصروف ہیں۔اسطرح طبی تحقیق نہ ہونے کا الزام ختم ہوااور ہمارے قدیم حکماء کا نام ایک بار پھر روشن ہوگیا ہے ،شہید حکیم محمد سعید کہا کرتے تھے کہ یہ دور علم و حکمت ہے اسمیں کسی عطائیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،ان کا خیال تھا کہ اطباء￿ اور طب کا بڑا مسئلہ چند مراعات نہیں بلکہ طب کو پرانے طور طریقوں سے نکال کر عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
انہوں نے اپنے شاندار ماضی سے تعلق جوڑنے کے لیے (البیرونی )ابنِ سینا ،ابن الیثیم کی کتب کے تراجم کرائے ،ان پر عالمی کنگریسوں کا اہتمام کیا ،جب جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں انہیں مشیر امور طب بدرجہ وفاقی وزیر بنایا گیا ،تو انکی کاوشوں سے طبی بورڈ کو نیشنل کونسل فار طب کا درجہ دیا گیا ،نیشنل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن قائم ہوئی ،بلدیاتی اداروں کو طبی ڈسپنسریاں قائم کرنے کی ہدایت ہوئی،سرکاری اداروں میں اطباء کو پینل پر رکھا گیا ،حج طبی وفد کا سلسلہ شروع ہوا۔
 شہید حکیم محمد سعید طب کی علمی و عملی شخصیت تھے،نامساعد حالات میں بھی کام کرتے رہے ،انکا انداز فکر سائنسی تھا ،وہ طب کو درجہ سائنس کے بغیر ترقی طب کو ممکن خیال نہ کرتے ،ملٹی نیشنل ادارے نہیں چاہتے تھے کہ طب کو فروغ ہو اور پاکستان دواؤں کے باب اور علاج معالجہ کے میدان میں خود کفالتی کی راہ اختیار کرسکے اور یہ منڈی انکے ہاتھ سے جاتی رہے ،جب حکیم صاحب کے راستے میں روڑے اَٹکائے گئے اور کام نہ کرنے دیا گیا تو انہوں نے وقت ضائع کرنے کی بجائے استعفیٰ دے دیا ،جنرل ضیاء الحق نے بادل نخواستہ استعفیٰ منظور کرتے ہوئے انہیں وقت کا بو علی سینا قرار دیا ، شہید حکیم محمد سعید مصروف جہاد رہنے والے انسان تھے ،تھکنا یا مایوس ہونا جانتے ہی نہ تھے ،انہوں نے اپنی توجہات کا رخ ممالک غیر کی طرف موڑ دیا ،جہاں انہیں بہت کامیابیاں لیں ،کو یت میں طب اسلامی مرکز کا قیام ،عالمی ادارہ صحت سے طب کے لیے الگ شعبہ کا قیام ،یونیسف کا طب کو موضوع فکر بنانا شامل ہے ، جس سے یہ فضا بنی کہ آج دنیا بھر کی جامعات میں طب پر ڈائیلاگ ہورہے ہیں اور ایک طب محفوظ کی تشکیل کے لیے کام ہو رہاہے ، شہید حکیم محمد سعید کے حوالے سے انکے ہر پڑھنے اور جاننے والے کے اپنے تاثرات ہیں ،راقم السطور کو شہید حکیم محمد سعید کے ساتھ کام کرنے ،قریب سے دیکھنے کا اور سفر وخضرمیں ساتھ رھنے کا موقع ملا ہے۔،انہوں نے مقاصد زندگی کی تکمیل کے لیے جسطرح کام کیا وہ تو اب تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے اور علمی و فلاحی اداروں کی صورت جاوِداں اور سرگرم ہے ،سچی بات تو یہ ہے کہ انکے ساتھ رہ کر حسن وظن بڑھا ورنہ عموماً قربت حسن و ظن ختم کر دیتی ہے ،وہ محسن طب ہیں ۔
 انہوں نے اپنی زندگی طب کے لیے وقف کر دی تھی انہوں نے فروغ طب کے لیے مطب کو بڑی اہمیت دی ،وہ ہر ہفتہ اتوار کراچی جبکہ ہر ماہ کا پہلا ہفتہ لاہور ،راولپنڈی اور پشاور دو روز مطب کرتے ،ملک میں ہونے کی صورت کسی طور ناغہ نہ کرتے ،وزیر رہے گورنر رہے مگر مطب نہ چھوڑا ،انکا مطب علی الصبح نماز فجر سے شروع ہو کر نماز عصر تک چلتا کوئی ڈھائی تین سو مریضو ں کے دْکھوں کا مداوا کی سعی کرتے ،وہ آخری مریض تک ہشاش بشاش رہتے ،مریضوں کی خدمت کر کے خوشی محسوس کرتے اور کھبی فیس نہ لی  ،مستحق مریضوں کو مفت دواء دیتے بلکہ ساتھ مالی مدد بھی کرتے ،انکے مطب میں غریب وامیر کی کوئی تفریق نہ تھی ،راقم نے مطب کی تربیت شہید حکیم محمد سعید سے حاصل کی،میں نے دیکھا کہ وہ وقت کی پابند ہر کام منصوبہ بندی سے کرتے،کوئی اجلاس ہوتا تو صرف متعلقہ موضوع پر بات کرتے ،انکی بے شمار مصروفیات تھیں،مگرہر کام کے لیے اوقات متعین کر رکھے تھے ،ذاتی زندگی میں بہت سادہ تھے ،جب مطب کرتے تو روزے سے ہوتے ،یہ کوئی نیاانکشاف نہیں کہ وہ ہمیشہ سفید لباس زیب تن کرتے ،جوان کی پہنچان بن گیا تھا ،روزہ عموماً کھجور یا لیموں کی سکنجین سے افطار کرتے ،زندگی بھر چائے نہیں پی ،وہ خوش گفتار تھے ،خوش طبع تھے ،حس مزاح سے بھرپور تھے ،دن کے روزہ دار شب کے زندہ دارتھے ،طب کے لیے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے اور جس طرح طب کو جدید میڈیکل سائنس کے مقابل لاکھڑا کیا،اس پر بجا طور محسن طب کہلاتے ہیں۔
 تعلیم اور صحت انکے خاص میدان عمل تھے ،وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی قوم تعلیم اور صحت کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صحت کے ساتھ ساتھ تعلیم کے میدانوں میں بھی بہت کام کیا ،جامعہ ہمدرداور اسکے زیر اہتمام تعلیمی ادارے قائم کیے ،ہمدرد تعلیم رپورٹ بنام ’روشنی ‘مرتب کی ،جن کے ثمرات اب سامنے آ رہے ہیں ،انکی تعلیمی خدمات پر انہیں سرسید ثانی بھی کہا جاتا ہے ،نونہالوں سے شہید حکیم محمد سعید کی محبت روز روشن کی طرح عیاں ہے ،دراصل وہ اہل وطن کی بنیادیں مستحکم کررہے تھے،کیونکہ خشت اول ٹیٹرھی ہو تو دیواریں سیدھی نہیں ہو سکتیں ،نونہالوں کی تربیت کے لیے رسالہ ہمدرد نونہال کا اجرا ،نونہال ادب کے تحت نونہالوں کیلئے کتب کی اشاعت ،پھر نونہال اسمبلیوں کا سلسلہ شروع کیا جو آج بھی جاری ہے ،حکیم صاحب نے نونہالوں کو جنوں اور پریوں کی بجائے ایسی داستانیں اور کہانیاں سنائیں کہ انکے خیالات کو وسعت اورعظمت کا شعور بیدار کرسکیں ،نوجوانوں کے لیے جواں دوست کا پلیٹ فارم بنا یا،تاہم وہ بڑوں سے مایوس تھے ،حقیقت یہی ہے کہ وہ تعلیم اور صحت کے میدانوں میں پھیلے اندھیروں کو ختم کرنے کیلئے ہمہ تن مصروف رہے ،تعمیر پاکستان انکی زندگی کا عنوان بھی ہے ان کا نعرہ تھا پاکستان سے محبت کرو -پاکستان کی تعمیر کرو ،تعمیر پاکستان کیلئے بے شمار علمی تحاریک شروع کیں ،جن میں سپاہ صحت ،سپاہ اخلاق ، آوازاخلاق ،27رمضان المبارک یوم قیام پاکستان ،علم و عالم کی قدردانی ،لائبریریوں کا فروغ ،شام ہمدرد،تذکارحکمت،قرآن و سیرت کانگرسوں کا سلسلہ،طب وصحت،تاریخ اسلام اور مشاہیر پر عالمی سیمینارز، ہجرہ صدی کی تقریبات کے علاوہ بھی کئی تحاریک شروع کر کے اپنے عزم و عمل کے لافانی نقوش رقم کر گئے ،انکی شخصیت ایسی تھی کہ صرف ایک پہلو سے نظارہ نہیں کیا جاسکتا ہے ،ان پر لکھنے اور بولنے کے لیے انکے فکر و نظر سے غوطہ زن ہونا ضروری ہے ،انکی زندگی کا  بہ نظر غائرجائزہ ضروری ہے ،حکیم صاحب کی ساری زندگی جہد مسلسل کی داستان ہے ،وہ کہ  ایک خورشید مثال شخص تھے اور خورشیدمثال شخص روشنیوں کاامین ہوتا ہے جو مانندخورشید جہاں تاریک کوروشن کرتا ہے ، انکی اس حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی ،کیونکہ آفتاب آمد دلیل آفتاب ہے ،یعنی جب سورج کی روشنی ہوتی ہے تو اسکا احساس قید زندانی کو بھی ہو جاتا ہے، شہید حکیم محمد سعید ایک فرد نہیں ایک عہد ، ایک ادارہ اور ایک انجمن تھے ،انکی خدمات تعمیر پاکستان کے ہر شعبے پر محیط ہیں ،جن کی بنا پر وہ قوم کے لئے سر سید احمد خان ،علا مہ محمد اقبال اور قائداعظم کے بعد چوتھی رول ماڈل شخصیت تسلیم کئے جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن