شنگھائی تعاون تنظیم ممالک کا یکطرفہ تجارتی پابندیوں کی مخالفت کا اعلان

عبدالستار چودھری 
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کا 23واں اجلاس اسلام آباد میں اختتام پذیر ہو گیا ہے، یہ اجلاس پاکستان کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان نے رواں سال 2024-25ء کی صدارت چین کے سپرد کردی جب کہ اگلے برس کانفرنس کی سربراہی روس کو دینے پر اتفاق کیا گیا۔ ایس سی او ارکان ممالک کے رہنماؤں نے ایس سی او کے بجٹ سے متعلق امور کی منظوری دی۔ سربراہ اجلاس کے موقع پر ایس سی او سیکرٹریٹ سے متعلق دستاویزات ، رکن ملکوں کے مابین انسداد دہشت گردی کی علاقائی ایگزیکٹو کمیٹی سے متعلق دستاویز  اور اس کے علاوہ اراکین کے درمیان اٹھ دستاویزات پر بھی دستخط کیے گئے۔ ایس سی او کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم کے اسلام آباد میں منعقدہ 23ویں سربراہی اجلاس میں بیلاروس کے وزیر اعظم گلووچنکو، بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر، ایران کے ٹریڈ کے وزیر سید محمد اطباق، کرغزستان کے وزیر اعظم او اے بینتانوف، چین کی اسٹیٹ کونسل کے وزیر اعظم لی چیانگ، تاجکستان کے وزیر اعظم خیر رسول زادہ، وزیراعظم اْزبکستان این ایراپوف، ایس سی او سیکریٹری جنرل ژینگ منگ اور ڈائریکٹر ایگزیکٹو کمیٹی آف دی ایس سی او ریجنل آئی ٹی ٹیررسٹ اسٹرکچر آر ایس میرزوف بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کی جب کہ منگولیا کے وزیراعظم سویوں ارڈین اور وزیر خارجہ ترکمانستان گیسٹ آف پریذائڈنگ پارٹی کے طور پر شریک ہوئے۔ کانفرنس کے شرکاء نے آستانہ میں ہوئے ہیڈز آف اسٹیٹ اجلاس کے فیصلوں کے عمل درآمد کی اہمیت پر زور دیا ااور تنظیم کی 2024-25 کی چیئر  عوامی جمہریہ چین کو ملنے کی حمایت کی۔ 
 اجلاس کے شرکاء  نے ایک محفوظ، پْرامن اور خوشحال مستقبل کے لیے تعاون بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا، سربراہان نے ایس سی او وزراء اجلاس کے نتائج کا جائزہ لیا۔ رہنماؤں نے معاشی ترجیحات اور تجارتی تعاون کو فروغ سے متعلق اقدامات پر عمل درآمد کی ہدایات کی۔ رکن ممالک کے سربراہان نے کہا کہ سائنسی اور تکنیکی ایجادات اور ڈیجٹل معیشت کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جانا ضروری ہے۔ اجلاس میں ایس سی او کی معاشی اور تنظیمی سرگرمیوں کے فیصلے کیے گئے۔ سربراہان نے الیکٹرانک تجارت کے اسپیشل ورکنگ گروپ کے مسلسل اجلاس منعقد کرنے پر زور دیا گیا۔ سربراہان کی جانب سے پروڈکشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سلوشن سے متعلق اقدامات پر عمل درآمد کے تجربات کی تجویز کا جائزہ لیا گیا۔ سربراہان نے ملٹی لیٹرل ٹریڈ اور معاشی تعاون سے متعلق رپورٹ کی منظوری دی۔ ایس سی او ہیڈز آف گورنمنٹ کا آئندہ اجلاس 2025 میں روس کی میزبانی  میں ہوگا۔ 
تنظیم کے رکن ممالک کی جانب سے یو این جنرل اسمبلی سے متعلق امن ہم آہنگی اور ترقی کیلئے پیش کی گئی قرارد کی حمایت کی گئی۔ کانفرنس کے دوران اپنے افتتاحی خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی طاقت اس کی سیاسی  اقتصادی  اور ثقافتی جہت میں ہے، وزیراعظم نے کہاکہ خطے میں باہمی رابطوں کے ان منصوبوں کوسیاسی تناظرمیں نہیں بلکہ اپنی اجتماعی صلاحیت کے تحت سرمایہ کاری کے تناظرمیں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یکطرفہ دبائو اور تحفظ پسند اقدامات بین الاقوامی قانون کے منافی ہیں جس سے اقتصادی ترقی میں حائل رکاوٹوں کے باعث متاثرہ ممالک کو عالمی سطح پر عدم مساوات کا سامنا  ہے۔غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیاں انسانیت کے وجود کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ پاکستان موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک میں سرفہرست ہے، سرحدوں سے ماوراء موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا اور ایس سی او کے خطے کے اندر ماحولیات کا تحفظ، پائیدار ترقی، اقتصادی استحکام اور سماجی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ اقدامات ضروری ہیں۔ ایس سی او ممالک کے درمیان ان معاہدوں اورایم اویوز کوعملی شکل دینے کاوقت آگیاہے۔بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، چین کا اقتصادی راہداری کیلئے انٹرنیشنل، نارتھ سائوتھ کوریڈورجیسا منصوبہ ہے جبکہ پاکستان بھی انفراسٹرکچر پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔مالی تعاون کے طریقہ کار کے بارے میں ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ کے بروقت فیصلے پر وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے متبادل ترقیاتی فنڈنگ میکانزم بنانے کی تجویزکی حمایت کی اور کہاکہ اس سے تعطل کا شکار مختلف ترقیاتی اقدامات کو آگے بڑھانے میں مددملے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے 2030 تک توانائی کے شعبہ میں تعاون کے فروغ کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کی ایسوسی ایشن کے قیام کا بھی خیرمقدم کیا ۔   
وزیراعظم نے معزز مہمانوں کو دارالحکومت اسلام آبادمیں خوش آمدید کہتے ہوئے اسے شانداراجتماع کی میزبانی  قرار دیا۔ انہوں نے کہا ایس سی او شنگھائی سپرٹ کے مطابق پائیدارترقی ، خوشحالی ، اجتماعی سلامتی کیلئے دنیا کی 40 فیصدآبادی کی نمائندگی کررہاہے۔ ہمیںاپنے بہترین تجربات کے تبادلہ، اورجامع عملی منصوبوں کوعملی شکل دینے کیلئے   اس سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے جس سے ہماری معیشتوں اورمعاشروں کو کوفائدہ پہنچے گا۔وزیراعظم نے کہاکہ ہم تاریخی تبدیلیوں کاسامنا کررہے ہیں جہاں تیزترتبدیلیاں سماجی، سیاسی،معاشی اورسلامتی کے منظرنامہ کوبدل رہے ہیں۔ اپنے برادر رکن ممالک کی مدد سے ہم اس راہ پر آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کی جھلک اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں نظر آتی ہے جو متعلقہ مالی معاونت کے طریقہ کار، ماحول دوست ترقی، ماحولیاتی تحفظ کے شعبوں میں ہم آہنگی، تعلیمی اور سیاحتی روابط کے ذریعے سماجی و ثقافتی روابط کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ غربت سے نمٹنے اور ہماری خواتین اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے میں پیش پیش ہے۔ تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کیلئے تنظیموں کے درمیان تعاون، تخلیقی معیشت کی ترقی کے میدان میں رکن ممالک کے درمیان تعاون کا فریم ورک اور ایس سی او نیو اکنامک ڈائیلاگ پروگرام جیسے اقدامات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔وزیر اعظم نے کہا علاقائی سطح پر جہاںبین الاقوامی برادری کو انسانی بحران اور معاشی بدحالی کو روکنے کے لیے افغانستان کی عبوری حکومت کی مدد کے لیے درکار مدد فراہم کرنی چاہیے، وہیں افغان عبوری حکومت کی سیاسی شمولیت سے اس کی سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو اس بات کو یقینی بنا نا بھی ضروری ہے ۔وزیراعظم نے کہاکہ غربت کا مقابلہ کرنا نا صرف اخلاقی ضرورت بلکہ معاشی ترقی اور خوشحالی کا ایک بنیادی محرک ہے۔پاکستان غربت کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں میں اپنا کردارجاری رکھے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن