میری صحافتی عمر تقریباََ ختم ہونے کو ہے۔ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات میں لیکن کچھ بھی نہیں بدلا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بلکہ یہ دونوں ممالک بتدریج ایک دوسرے کے لئے تقریباََ اجنبی ہونے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ قریب ترین ہمسایوں کے درمیان ایسی اجنبیت اپنی جگہ ایک حیران کن واقعہ ہوگی۔
بطور رپورٹر1980ء کی دہائی کے تقریباََ وسط سے بھارت میں مقیم رہ کر وہاں کے واقعات کو رپورٹ کرنا میری پیشہ وارانہ ذمہ داری رہی ہے۔ اندرا گاندھی کے قتل کے چند ہفتے بعد پہلی بار وہاں کے انتخابات کور کرنے گیا تھا کہ جو راجیو گاندھی کو تاریخی کامیابی سے ہم کنار کروانے کا سبب ہوئے تھے۔ رواں صدی کا آغاز ہوا تو تقریباََ تین برس تک ایک انگریزی اخبار کے نمائندے کی حیثیت سے دہلی میں تین مہینے گزارنے کے بعد اور دو مہینے اسلام آباد میں قیام کے بعد واپس دلی لوٹ جاتا۔ بالآخر دل بھرگیا۔ بہت مشکل سے اپنے ادارے کے مالکان کو سمجھاسکا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین رشتوں میں کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ مجھے بھارت میں اپنے بیوی بچوں سے دورخجل خواری سے بچایا جائے۔ جنرل مشرف کے دورِ اقتدار کے آخری برسوں میں ’’بیک ڈور‘‘ مذاکرات کی بدولت برصغیر میں ’’دیرپاامن‘‘ کا نسخہ ڈھونڈنے کی ترکیب ناکام ہوئی تو صحافتی اداروں کے مالکان کو میری التجا معقول سنائی دینے لگی۔ ویسے بھی ہمارے ہاں ’’عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کی رونق لگ چکی تھی۔ جان چھوٹی سو لاکھوں پائے والا معاملہ ہوگیا۔
کئی دہائیوں کے وقفے کے بعد اسلام آباد میں رواں ہفتے کے دوران شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس کا آغاز ہوا تو میرے اندردفن ہوا رپورٹر انگڑائی لے کر تھوڑی دیر کو متحرک ہوگیا۔ سرکار نے ریٹائر ہوئے رپورٹر کا بے حد لحاظ کیا۔ مجھے مذکورہ تنظیم کے اجلاس کے لئے قائم ہوئے پریس سنٹر تک رسائی کے لئے درکار کارڈز نہایت عزت واحترام سے فراہم کردئے۔ جس عمارت میں یہ سنٹرقائم ہوا ہے وہ پاک-چائنہ کمپلیکس کہلاتی ہے۔ یہ اسلام آباد کے معروف روز ایندجاسمین گارڈن کو لوک ورثہ میوزیم اور شکرپڑیاں سے ملانے والی سڑک پر واقعہ ایک پرشکوہ عمارت ہے۔ منگل کی سہ پہر سکیورٹی ناکوں کی وجہ سے تقریباََ سنسان اور کرفیو زدہ دِکھتے اسلام آباد سے اس عمارت میں داخل ہوا تو جی واقعتا محاورے والا ’’باغ باغ‘‘ ہوگیا۔
ہماری وزارت اطلاعات نے فقط دو دنوں کے نوٹس پر ہمارے بہت ہی محنتی اور اَن تھک پی آئی او کی نگرانی میں پاک چائنہ تعلق سے مختص عمارت کو جدید ترین پریس سنٹر میں بدل دیا تھا۔ 1986ء سے ہر برس تقریباََ تین سے چار مرتبہ مختلف عالمی یا علاقائی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے دنیا کے امیر ترین اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جدید ترین تصور ہوتے ممالک جاتا رہا ہوں۔ ہمارے ہاں قائم ہوا سنٹر ہر حوالے سے جدید ترین سہولتوں سے مالا مال تھا۔ وہاں موجود ہر صحافی کو اپنے دفاتر سے مسلسل رابطے کو یقینی بنانے کے تمام تر وسائل مہیا کردئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کھانے پینے کے لوازمات بھی ہماری مہمان نواز ثقافت کا عملی طورپربھرپور اظہار تھے۔
اپنی عمر کی وجہ سے میں پاکستان کے بے شمار نوجوان صحافیوں سے بھی شناسا نہیں۔ ان میں سے چند قومی اسمبلی کی پریس گیلری کی وجہ سے مجھے جانتے ہیں۔ جب بھی ملتے ہیں تو بڈھے کو اپنا نام یاد دلاکر شرمندہ کرتے ہیں۔ بھارت سے آئے صحافیوں میں سے کسی ایک سے بھی شناسائی کا لہٰذا امکان ہی نہیں تھا۔ بھارت کی ایک معروف اور نہایت لگن سے خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی سوہسنی حیدرمگرمجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئیں۔ نہایت تپاک سے ملیں اور بھارت سے آئے دیگر صحافیوں سے تعارف کروایا۔ جس بھی بھارتی صحافی سے ملا وہ بہت خوش تھا کہ انہیں پریس سنٹر میں ’’دفتر‘‘ جیسا ماحول فراہم کرتے ہوئے کام کرنے کا گوشہ (Work Station)مہیا کردیا گیا ہے۔ انہیں مزید کسی شے یا مدد کی ضرورت نہیں تھی۔
پاکستان اور بھارت کے تمام صحافی مگر ایک ہی سوال پر تجسس مرکوز کئے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ بھارت سے ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کے لئے خصوصی طورپر اسلام آباد آئے وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیر اعظم یا وزیر خارجہ سے ’’ون آن ون‘‘ ملاقات ہوگی یا نہیں۔ مجھے مذکورہ ملاقات کا دور دور تک امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ اپنے نوجوان ساتھیوں کا مذکورہ ملاقات کے حوالے سے تجسس کا مشاہدہ کرتے ہوئے یاد یہ بھی آیا کہ ہمارے اپنے خطے یعنی جنوبی ایشیاء کے ممالک کے مابین علاقائی تعاون فروغ دینے کے لئے بھی ایک تنظیم -سارک- کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ بنگلہ دیش کے جنرل ضیاء نے اس تنظیم کو عملی صورت دی تھی۔ اس کا ایک اجلاس محترمہ بے نظیر بھٹو کے حکومت سنبھالتے ہی 1988ء میں پاکستان میں بھی ہوا تھا۔ اس میں شرکت کیلئے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی تشریف لائے تھے۔ میں بطور صحافی اسے دن رات کور کرتا رہا۔ اس کانفرنس کے دوران بھی تمام صحافیوں کی توجہ فقط اس امر پر مرکوز رہی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور راجیوگاندھی کے مابین سارک سے ہٹ کر کوئی باہمی ملاقات ہوگی یا نہیں اور وہ اس ملاقات کی بدولت پاک-بھارت تعلقات میں کوئی ’’تاریخی‘‘ تبدیلی لاسکیں گے یا نہیں۔ ان دونوں کے مابین ملاقات بالآخر ہوگئی۔ اس کے دوران کئی اہم فیصلے بھی ہوئے۔ سیاچین سے فوجوں کی واپسی کا فیصلہ اسی ملاقات کی بدولت ’’بیک تھرو‘‘ کی صورت سامنے آیا۔ ان میں سے لیکن کسی ایک فیصلے پر بھی عمل نہ ہوا۔
اس کے بعد سارک کی جو کانفرنس اس خطے کے دیگر ممالک میں ہوئیں ان سب میں بھی شریک ہوتا رہا ہوں۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے صحافی بتدریج اس ادارے کی کانفرنسوںسے چڑنا شروع ہوگئے جو ان کی دانست میں فقط پاک-بھارت تعلقات کی ’’یرغمال‘‘ بنی رہتی تھیں۔ اب مذکورہ تنظیم کا اجلاس کئی برسوں سے نہیں ہوا۔ نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی بحالی کے امکانات نظر آرہے ہیں۔
ایس سی او میں بھارت ہی نہیں روس اور چین جیسے کئی اعتبار سے بڑے ملک بھی شامل ہیں۔ ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کے لئے چین کے وزیر اعظم کانفرنس کے انعقاد سے دو روز قبل اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ روس کے وزیر اعظم منگل کی رات گیارہ بجے آئے ہیں۔ روس سے مگر اس کانفرنس کی خاطرچارسو کے قریب لوگ آئے ہیں۔ اہم ترین حکومتی عہدوں پر فائز افراد کے علاوہ روس کی مختلف وزارتوں کے اعلیٰ سطح کے افسران بھی روسی وفد میں شامل ہیں۔ منگل کے روز ایس سی او کے لئے خصوصی طورپر بنائے پریس سنٹر میں کئی گھنٹے گزارتے ہوئے مجھے ایک صحافی بھی لیکن اس سوال کے بارے میں متجسس سنائی نہیں دیا کہ روس کے جس پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات بہت زیادہ قریبی نہیں اتنے بڑے وفد کے ساتھ پاکستان کیوں آیا ہے۔ ساری توجہ فقط اس سوال پر مرکوز تھی کہ بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان کے وزیر اعظم یا اپنے ہم منصب سے علیحدگی میں کوئی ملاقات ہوگی یا نہیں۔اس سوال کے علاوہ نہایت رشک اور اکثر حسد سے ذکر بھارت کی مشہور صحافی برکھادت کا بھی ہورہا ہے جو نظر بظاہر ایس سی او میں شرکت کیلئے واہگہ سے پیدل پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئیں۔ وہاں ان کی نواز شریف اور مریم نواز صاحبہ سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد انہوں نے ایک ’’دھانسو‘‘ وی لاگ کیا اور پاکستان میںایک رات قیام کے بعد واپس وطن لوٹ گئیں۔ مجھے تاہم کامل یقین ہے کہ میاں صاحب کا برکھادت کو دیا ’’دھانسو‘‘ انٹرویو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات میں کوئی ’’انقلابی‘‘ ہل چل پیدا کرنے کا باعث نہیں ہوگا۔