بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئے، کچھ وقت یہاں گذار، شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شریک ہوئے، اسے بہت بڑی پیشرفت تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ یہ کام ویڈیو لنک کے ذریعے بھی کر سکتے تھے لیکن انہوں نے خود ایس سی او اجلاس میں شرکت کو ترجیح دی۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات اچھے نہیں ہیں اور بنیادی مسائل حل ہونے تک تعلقات معمول پر آبھی نہیں سکتے۔ مقبوضہ کشمیر سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جب تک یہ معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل نہیں ہوتا اس وقت تک حالات معمول پر نہیں آ سکتے۔ پاکستان میں امن و امان کے حالات بگاڑنے میں بھارت کا بہت کردار رہا ہے، بھارت افغانستان کے ذریعے اور دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرتے ہوئے پاکستان میں امن عمل کو خراب کرنے کی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ پاکستان نے عالمی اداروں کے سامنے ہر موقع پر ناقابل تردید ثبوت و شواہد رکھتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کیا ہے لیکن دنیا مالی مفادات کے پیش نظر حقائق پر نظر دوڑانے کے بجائے کسی اور انداز میں سوچتی ہے اور وہ سوچ مالی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ سو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بہتری کے لیے بنیادی مسائل کا حل ضروری ہے۔ اس کے لیے بات چیت بھی ایک راستہ ہی ہے۔ سو بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان آمد کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ خطے میں پائیدار امن اور دنیا کو ایک بڑی جنگ سے بچانے کے لیے بھارت کو ذمہ دار اور امن پسند ملک جیسے رویے کا اظہار کرنا ہو گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں کئی ممالک شریک تھے اور موجودہ حالات میں اس اجلاس کی میزبانی سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر ضرور فائدہ ہو گا۔
شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کی شرکت علاقائی سطح پر تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے، خاص طور پر جب دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تناؤ اور تنازعات جاری رہتے ہیں۔ اگرچہ SCO بنیادی طور پر اقتصادی، سکیورٹی اور علاقائی تعاون کے مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن اس پلیٹ فارم پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ملاقاتیں اور مذاکرات عالمی سطح پر ان کے تعلقات کو بہتر بنانے کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں شنگھائی تعاون تنظیم ایک نیوٹرل اور ملٹی لیٹرل فورم ہے، جہاں دونوں ممالک کے نمائندے ایک دوسرے سے براہ راست یا غیر رسمی ملاقات کر سکتے ہیں۔ اس میں دو طرفہ مذاکرات کی گنجائش ہوتی ہے، جہاں سکیورٹی، تجارت، یا دیگر مسائل پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعدہ مذاکرات اکثر معطل رہتے ہیں، ایسے اجلاسوں میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ یا دیگر اعلیٰ حکام کی موجودگی سفارتی سطح پر تناؤ کو کم کرنے اور تعلقات میں بہتری لانے کا ایک موقع بن سکتی ہے۔
ایس سی او کا بنیادی مقصد دہشت گردی، انتہا پسندی اور علاقائی امن کو فروغ دینا ہے۔ دونوں ممالک ان مسائل پر بات چیت کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے سکیورٹی خدشات کو سن سکتے ہیں، جو کشیدگی کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے تحت دونوں ممالک کے لیے مشترکہ اقتصادی پروجیکٹس پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے، خاص طور پر علاقائی تجارت اور توانائی کی راہداریوں کے ذریعے اقتصادی تعلقات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایسے اجلاسوں میں شرکت سے پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان غیر رسمی ملاقات یا مکالمے کا امکان ہوتا ہے۔ جو کہ اس مرتبہ بھی ہوا ہے۔ یہ ملاقاتیں تعلقات میں بہتری لانے یا کسی بحران کو ختم کرنے کا باعث بن سکتی ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم میں چین اور روس جیسے بڑے ممالک موجود ہیں جو دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے ثالثی کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں ، خاص طور پر اس وقت جب ان کے مفادات پورے خطے کے امن سے جڑے ہوں گے۔ ایس سی او جیسے فورمز میں بھارت اور پاکستان کی شمولیت سے فوری نتائج کی توقع کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان تاریخی اور سیاسی مسائل کافی پیچیدہ ہیں۔ لیکن یہ فورم ان کے درمیان سفارتی دروازے کھلے رکھنے اور مذاکرات کے مواقع فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ایسے اجلاسوں میں دونوں ممالک کی موجودگی ایک علامتی اشارہ بھی ہے کہ وہ علاقائی تعاون اور امن کو ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ دوطرفہ تنازعات ابھی بھی موجود ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس کے موقع پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان بات چیت کرکٹ سے شروع ہوئی۔ پاکستان نے دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ سے بات چیت کا آغاز کرنیکی بات کی ہے۔ چونکہ آئندہ برس پاکستان چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی کر رہا ہے ۔ اسحاق ڈار اور جے شنکر کے درمیان ظہرانے پر بات چیت ہوئی۔ دونوں وزرائے خارجہ کو اکٹھے بٹھایا گیا اور وزارت خارجہ نے دونوں وزرائے خارجہ کو اکٹھا بٹھانے کے لیے سِٹنگ ارینجمنٹ تبدیل کیا۔ اجلاس میں شرکت کے بعد پاکستان سے روانگی کے وقت بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے شاندار میزبانی پر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کرکٹ سے بات شروع کرنے اور اسے جاری رکھنے کی سوچ پر کس حد تک عمل ہوتا ہے، کیا مقبوضہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر پاکستان میں کوئی بھی حکومت بھارت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کر سکتی ہے۔
آخر میں میر تقی میر کا کلام
دیکھ تَو دِل کہ جاں سے اْٹھتا ہے
یہ دْھواں سا کہاں سے اْٹھتا ہے
گور کِس دِل جَلے کی ہے یہ فَلَک
شْعلہ اِک صْبح یاں سے اْٹھتا ہے
خان دِل سے زِینہار نہ جا
کوئی ایسے مَکاں سے اْٹھتا ہے
نالہ سْر کھینچتا ہے جَب میرا
شَور اِک آسماں سے اْٹھتا ہے
لَڑتی ہے اْس کی چَشمِ شَوخ جہاں
ایک آشوب واں سے اْٹھتا ہے
سِدھ لے گَھر کی بھی شْعل آواز
دْود کْچھ آشیاں سے اْٹھتا ہے
بیٹھنے کون دے ہے پِھر اْس کو
جو تِرے آستاں سے اْٹھتا ہے
یْوں اْٹھے آہ اْس گَلی سے ہَم
جیسے کوئی جہاں سے اْٹھتا ہے
عِشق اِک میر بھاری پَتَّھر ہے
کَب یہ تْجھ ناتواں سے اْٹھتا ہے۔۔۔!