محسن ِ پاکستان کی برسی اور ایس سی او کانفرنس

محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا 10 اکتوبر کو یوم وفات تھا مگر میں جو اپنے آپ کو بڑا باخبر کالم نگار سمجھنے کا دعویدار ہوں‘ بھول گیا کہ ڈاکٹر صاحب 10 اکتوبر کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔ یہ تو ثواب کمایا میرے کرم فرما سابق ایم این اے اور سابق پارلیمانی سیکرٹری برائے دفاع چودھری خورشید الزمان نے ‘ جنہوں نے ڈاکٹر مرحوم کی تیسری برسی کی مجھے اطلاع دی۔ میں اس سوچ میں گم تھا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے یوم وفات کے حوالے سے قومی اخبارات‘ ٹی وی‘ ریڈیو اور سوشل میڈیا پر انکی قومی اور ملکی نیوکلیئر خدمات پر انہیں بھرپو خراج تحسین اور خراج عقیدت پیش کیا جائیگا۔ مگر جلد ہی مجھے اپنی اس سادگی کا احساس ہو گیا۔ میں تو یہ بھول ہی گیا تھا کہ ہمارے وطن عزیز میں مرنے والوں کو  جلد ہی بھلا دیا جاتا ہے۔ 
پھر نہیں بستے وہ دل جو ایک بار اجڑ جائیں
 قبریں جتنی بھی سجائو کوئی زندہ نہیں ہوتا
افسوس! دنیا بھر میں ہمیں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مضبوط اور اپنی ٹیکنالوجی کو توانا اور طاقتور بنانے والی یہ عالمی شہرت یافتہ شخصیت ہم سے جلد روٹھ گئی۔ آنیوالی نسلیں یقیناً اپنے اس محسن پر فخر کریں گی کہ ایسی شخصیات بڑی مدت بعد پیدا ہوتی ہیں۔ وطن عزیز میں جمہوریت کے نام پر آجکل جو کچھ ہو رہا ہے‘ یا ہونے جا رہا ہے‘  برطانیہ میں مقیم ہر پاکستانی کا دل اس پر بے چین ہے۔ ملک میں بڑھتا  سیاسی عدم استحکام اور بعض نام نہاد سیاست دانوں کی منفی انداز میں سیاست مزید شرمندگی کا باعث بن رہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں روزگار کے ممکنہ مواقع کے ماہر ایک گورے دوست نے اگلے روز مذاق مذاق میں ایک علمی طعنہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ میرے وطن عزیز پاکستان سے سال 2024ء کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران تقریباً سات لاکھ بے روزگار نوجوان خوشحالی کے حصول کیلئے ملک چھوڑ چکے ہیں اور پھر قدرے توقف کے بعد ملتان سٹیڈیم میں کھیلے گئے انگلینڈ ٹیم کے پہلے ٹیسٹ میچ میں ’’تاریخی فتح‘‘ کی جس طرح منظر کشی کی‘ میرے لئے واقعی وہ شرمندگی سے کم نہیں تھی۔ بنیادی طور پر دونوں خبریں موجودہ حالات کے تناظر میں گو اس لئے بھی خاص نہیں تھیں کہ جب گھر جل رہا ہو تو آگ بجھانے کے عمل کے دوران سوکھی لکڑی کو لگی آگ پر فوری قابو پانا بعض اوقات ممکن نہیں رہتا۔ خوشحالی کے حصول کیلئے سات لاکھ نوجوانوں کا ملک چھوڑ جانا افسوسناک معاشی حالات کا واقعی ایک ثبوت ہے۔ مگر کمزور معیشت اور اقتصادی بحران صرف ترقی پذیر یا غیرترقی یافتہ ممالک میں ہی نہیں‘ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک بھی اسکی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ 
یہ تو اچھا ہوا کہ پی آئی اے کی نجکاری اور ریلوے کی بگڑی حالت کے بارے میں گورے دوست کو ’’اضافی مذاق‘‘ کا موقع نہ مل سکا ورنہ مجھے مزید ندامت سے دوچار ہونا پڑتا۔جہاں تک ’’قومی کرکٹ ٹیم‘‘ کی اپنی ہی گرائونڈ میں انگلینڈ ٹیم کے ہاتھوں بدترین شکست کا معاملہ ہے‘ تو اس سے واقعی ملک و قوم کو کھیلوں کی دنیا میں شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا۔ انگلینڈ سے عبرت ناک شکست کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس میچ پر کروڑوں روپے لگانے کا کسی کو درد نہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ اس شکست کا بوجھ کرکٹ بورڈ‘ سلیکشن کمیٹی‘ چیئرمین یا پھر کوچ اٹھائے گا‘ جواب کون دیگا۔ کرکٹ‘ ہاکی‘ سکوائش کے علاوہ بھی تو پاکستان میں درجنوں کھیل ہیں‘ جب ’’جیولین تھرو‘ ویٹ لفٹنگ‘ باکسنگ‘‘ کی اہمیت بڑھ سکتی ہے تو پھر باسکٹ بال‘ والی بال‘ فٹ بال اور بیڈمنٹن کے کھلاڑیوں کو عالمی کھیلوں اور میچز کیلئے تیار کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ ہماری قومی بدقسمتی ہی یہ ہے کہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں وہ پیمانہ ہی استعمال نہیں کرتے جس سے ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کا کھوج لگایا جا سکے۔ ملک کے 70 فیصد افراد کو جس طرح اپنے قومی جانور ’’مارخور‘‘ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل نہیں‘ اسی طرح پچاس فیصد شائقین کو کرکٹ میچوں میں دلچسپی سے زیادہ اس کھیل کی تاریخ اور اہمیت کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں۔ انتہائی دکھی دل سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جس طرح ہماری سیاست میں شعبدہ بازی نے اپنی جگہ بنالی ہے‘ اسی طرح اب کرکٹ کو بعض کھلاڑیوں اور منظور نظر مینجمنٹ کے سپرد کیا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیم 500 رنز بنا کر بھی اننگز سے ٹیسٹ میچ ہارنے والی دنیا کی پہلی کرکٹ ٹیم بن گئی۔ 
جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کا آج آخری دن ہے جس میں چین‘ روس‘ ایران‘ قازقستان‘ کرغستان‘ اور تاجکستان کے سربراہان سمیت بھارت کی جانب سے وزیر خارجہ جے شنکر شرکت کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے بھارت کے کسی لیڈر نے پاکستان میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت نہیں کی مگر اب نریندر مودی نے اچانک سیاسی چال چلتے ہوئے اپنے وزیر خارجہ کو اس کانفرنس میں شرکت کیلئے بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاک و ہند کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بعض برطانوی تجزیہ نگاروں کے مطابق بھارتی وزیر خارجہ کے شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں شرکت کرنے کے پس پردہ جنوبی ایشیاء کی تنظیم ’’سارک‘‘ جو تقریباً سرد خانے کی نذر ہو چکی ہے‘ اسے نظرانداز کرتے ہوئے اپنی علاقائی اہمیت واضح کرنا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سارک تنظیم بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بے جان ہو چکی ہے۔ پاکستان نے جب بھی سارک کانفرنس کروانے کیلئے میزبانی کا اعلان کیا‘ بھارت نے ہمیشہ شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس مرتبہ وسطی ایشیائی تنظیم کے 9 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی ہے۔ اس لئے بھارت کسی بھی طرح اپنے آپ کو ان ممالک سے علیحدہ رکھنا نہیں چاہتا۔

ای پیپر دی نیشن