ہمارے مسائل اور سر سید کا وژن

Oct 17, 2024

مشفق لولابی--- سماج دوست

آج سر سید احمد خان کا یومِ پیدائش ہے۔ وہ 17 اکتوبر 1817ء کو دلی میں پیدا ہوئے۔ سر سید کے بارے میں لوگ ان کے زمانے میں بھی مختلف آراء کا اظہار کرتے تھے اور آج بھی ان کے حوالے سے باہم متضاد رائیں پائی جاتی ہیں۔ جن لوگوں نے سر سید کو بہت قریب سے دیکھا ان میں سے ایک مولانا الطاف حسین حالی بھی ہیں جنھوں نے سر سید کی زندگی پر ’حیاتِ جاوید‘ نامی کتاب تصنیف کی۔ اس میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:
’’راست بازی اور وہ تمام اوصاف جو ایک راست باز آدمی میں ہونے ضروری ہیں، جیسے صدقِ مؤدت، جمعیت، دلیری اور آزادی وغیرہ اس شخص کی خصوصیات میں سے تھے۔ اس شخص نے اگر سچ پوچھیے تو اپنی آزادانہ تحریروں سے اردو لٹریچر میں آزادی اور سچائی کی بنیاد ڈال دی۔ اس نے لوگوں کو مجبور کیا کہ سچ بات کہنے میں کسی کی طعن و ملامت سے نہ ڈریں۔ جو بات اس کو حق معلوم ہوئی، اس کے کہنے میں کبھی اس بات کا خیال نہیں کیا کہ دنیا میں کوئی دوسرا شخص بھی اس بات میں اس کے ساتھ اتفاق کرنے والا ہے یا نہیں۔۔۔‘‘
سر سید کے مذہبی عقائد پر اعتراضات ہوتے ہی ہیں لیکن ان کے سیاسی نظریات بھی تنقید کا موضوع بنتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ہمارے ہاں کم ہی لوگوں پر اتنی تنقید ہوئی ہوگی جتنی سر سید پر ہوئی اور آج تک ہو رہی ہے۔ ستم یہ ہے کہ سر سید کے سیاسی نظریات پر تنقید کرنے والوں کی غالب اکثریت خود ڈیڑھ پونے دو سو سال پیچھے جا کر اس وقت کے حالات اور سر سید کے اقدامات اور سرگرمیوں کا جائزہ لینے کی بجائے سر سید کو اٹھا کر اپنے عہد میں لاتی ہے اور آج کے ماحول، حالات اور معاملات کو سامنے رکھ کر ان پر تنقید کرتی ہے۔ ہمارے ہاں آپ کو ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جو خود انتہائی پست درجے پر جا کر ذاتی فائدے سمیٹنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور کسی چھوٹے سے افسر کے سامنے بھی صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کا یارا نہیں رکھتے لیکن سر سید کے بارے میں ان کا خیال یہ ہے کہ انھیں تلوار لے کر وائسرائے کے سامنے کھڑے ہو جانا چاہیے تھا۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ برِ عظیم ہندوستان میں مسلمانوں کو سیاسی حوالے سے شعور و آگہی دینے کے لیے جن افراد نے بے مثال کردار ادا کیا سر سید اگر ان میں سرِ فہرست نہیں بھی تو ان کے ہراول دستے میں ضرور شامل ہیں۔ اکبر الہ آبادی سر سید کے ہم عصر تھے۔ انھوں نے سر سید پر تنقید بھی کی لیکن ان کی وفات پر کہا:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں، سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے، کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
اکبر اپنے اس قطعے میں سر سید کی جن خوبیوں کی طرف اشارہ کررہے ہیں ان میں سے ایک اہم خوبی یہ ہے کہ سر سید نے قوم کو تعلیم کی طرف مائل کرنے اور ان کے سماجی مسائل کے حل کے لیے انتھک محنت کی۔ اس سلسلے میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اور محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کا قیام اور رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ کا اجراء سر سید کی نمایاں ترین خدمات میں شامل ہیں۔ اپنے رسالے کے ذریعے سر سید نے قوم کو ان سماجی مسائل سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جو ان کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے اور صرف ان مسائل کے بارے میں ہی نہیں بتایا بلکہ ساتھ وہ حل بھی تجویز کیے جو سر سید کے خیال میں ان مسائل سے جان چھڑانے کے لیے مفید ثابت ہوسکتے تھے۔ اس رسالے میں شائع ہونے والے مضمون ’اپنی مدد آپ‘ کا درج ذیل اقتباس دیکھیے:
’’قومی ترقی مجموعہ ہے شخصی محنت، شخصی عزت، شخصی ایمانداری، شخصی ہمدردی کا۔ اسی طرح قومی تنزل مجموعہ ہے شخصی سستی، شخصی بے عزتی، شخصی بے ایمانی، شخصی خود غرضی کا اور شخصی برائیوں کا۔۔۔ اگر ہم چاہیں کہ بیرونی کوشش سے ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں اور نیست و نابود کردیں تو یہ برائیاں کسی اور نئی صورت میں اس سے بھی زیادہ زور شور سے پیدا ہو جاویں گی۔ جب تک شخصی زندگی اور شخصی چال چلن کی حالتوں کو ترقی نہ کی جاوے۔
اے میرے عزیز ہم وطنو! ۔۔۔ کیا جو طریقہ تعلیم و تربیت کا، بات بات چیت کا، وضع و لباس کا، سیر سپاٹے کا، شغل و اشغال کا، تمھاری اولاد کے لیے ہے، اس سے ان کے شخصی چال چلن، ااخلاق و عادات، نیکی و سچائی میں ترقی ہو سکتی ہے؟ حاشا و کلا۔ جب کہ ہر شخص اور کل قوم خود اپنی اندرونی حالتوں سے آپ اپنی اصلاح کر سکتی ہے تو اس بات کی امید پر بیٹھے رہنا کہ بیرونی زور انسان کی یا قوم کی اصلاح و ترقی کرے کس قدر افسوس بلکہ نا دانی کی بات ہے۔ ‘‘
یہ بات اب سے تقریباً ڈیڑھ صدی پہلے لکھی گئی تھی لیکن ہمارے متعدد مسائل کے حل کے لیے یہ آج بھی اتنی ہی مفید ہے جتنی اس زمانے میں تھی۔ ہمارے ہاں افراد کی غالب اکثریت خود کو بدلنے کو تیار نہیں ہے لیکن ان کی خواہش ہے کہ قوم مجموعی طور پر خود بخود ٹھیک ہو جائے یا ہمارے تمام مسائل پلک جھپکتے ہی حل ہو جائیں۔ اگر ہم واقعی اپنے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ہم میں سے ہر شخص کو ذاتی سطح پر دیکھنا ہوگا کہ خرابی میں اس کا ذاتی حصہ کتنا ہے اور اس حصے کو کم یا ختم کرنے کے لیے اسے خود ہی کردار ادا کرنا ہوگا۔ جب معاشرے کے افراد کی غالب اکثریت ٹھیک ہو جائے گی تو بہت سے مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے اور جو رہ جائیں گے ان کے حل کے لیے وہ درست افراد مل کر سماجی تحریک چلا سکتے ہیں۔

مزیدخبریں