خدمت، تجربات اور کامیابیو ں کا ایک سال

 گزشتہ سال آج کے دن جب مجھے پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کی وائس چیئر پرسن مقرر کیا گیا تو میں خود بھی نہیں جانتی تھی کہ اللہ تعالی مجھ سے اپنے بندوں کے لیے کتنا خوبصورت کام لینے والے ہیں اور مجھے حکومت پنجاب کی طرف سے ان غریب مستحق اور پسے ہوئے لوگوں کے لیے کام کرنے کا موقع ملے گا جن کی پہنچ اونچے ایوانوں تک نہیں۔ جن کی رسائی بڑے لوگوں تک نہیں اور جن کی آنکھیں مدد کے لیے ہمیشہ راہ تک رہی ہوتی ہیں۔
تعلیم اور صحت دو ایسے شعبے ہیں اور انسانی حقوق میں وہ بنیادی حق ہیں کہ اگر حکومت صرف ان کو ادا کر دے تو وہ اپنے عوام کی انتہائی مشکلات کو حل کر سکتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ تعلیم تعلیم اور صرف تعلیم ہی ایک ایسا جزو ہے جو کہ معاشرے میں تبدیلی لے کر آسکتا ہے اور اگر ایک بچی تعلیم حاصل کر لے تو وہ نہ صرف معاشرہ اور اپنا خاندان بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔
زیور تعلیم حکومت پنجاب کا بچیوں کی تعلیم کے لیے سب سے بڑا پروگرام ہے۔یہ کم شرع خواندگی کے حامل17 اضلاع میں چلایا جا رہا ہے اور اسے محکمہ سکول ایجوکیشن کی طرف سے پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی چلا رہی ہے، جس میں سرکاری سکولوں میں چھٹی سے دسویں جماعت تک پڑھنے والی طالبات کو 80فیصد حاضری برقرار رکھنے پر سہ ماہی بنیادوں پر3000روپے کیوظائف دیئیجاتے ہیں۔یہ پروگرام ان غریب والدین کے لیے ہے جو کہ اپنی بچیوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔ اس کا مقصد صرف سکولوں میں بچیوں کو سفر کی سہولتیں بہم پہنچانا ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ جب سے یہ پروگرام شروع ہوا ہے تب سے بچیوں کی سکولز میں حاضری کافی حد تک بڑھ گئی ہے۔ اب تک اس پروگرام کے تحت 825000 سے زائد طالبات مستفید ہو چکی ہیں۔
اس کے علاوہ دوسرا پروگرام جس کو میں انتہائی ضروری سمجھتی ہوں وہ آغوش ہے جو کہ پنجاب کے 12 اضلاع میں چلایا جا رہا ہے اور اس پروگرام میں رجسٹرڈ ہر وہ حاملہ عورت جو کسی بھی سرکاری مرکز ِ صحت سے صحت کی سہولیات لے رہی ہوں، ایسی خواتین کوحاملہ ہونے سے لے کر بچہ پیدا ہونے اور اس بچے کے دو سال کی عمر کو پہنچنے تک مرحلہ وار 23 ہزار روپے تک کی رقم ادا کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں ماں اور بچے کی صحت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اکثر ہمارے دیہاتی علاقوں میں عورتوں کوصحت کی بنیادی سہولتیں میسرنہیں اور بچوں کو اچھی صحت کے لیے حفاظتی ٹیکہ جات نہیں لگوائے جاتے جس کی وجہ سے ان میں بہت سی بیماریاں جنم لیتی ہیں تو پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی، حکومت پنجاب کی طرف سے یہ پروگرام کامیابی سے چلا رہی ہے جس میں تقریباًاب تک882607 سے زائد خواتین رجسٹر ہو چکی ہیں۔
اِن دونوں پروگرامز کے علاوہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی بنیاد ،خود مختار، نئی زندگی ،مساوات ، ہم قدم اور صلہء فن پروگرام چلا رہی ہے۔معذوروں، خواجہ سراؤں، غریب فنکاروں سمیت مستحق افراد کو کاروبار شروع کرانے اور ایسیافراد کو جن پر تیزاب پھینک کر انہیں جیتے جی مار دیا جاتا ہے، پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے پروگراموں کے ذریعے معقول گرانٹ دی جارہی ہے۔
چونکہ یہ تمام پروگرامز ایسے ہیں جن سے مستفید ہونے والے افراد کو رقم دی جاتی ہے ،تو میری دلی کوشش پہلے دن سے یہ رہی کہ حکومت پنجاب کا یہ فنڈ جو اس کے عوام کی امانت ہے پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کی طرف سے جلد از جلد اور شفافیت سے ان تک پہنچے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے میں نے خود یہ سوچا کہ چونکہ پنجاب بہت بڑا صوبہ ہے اور غریب لوگوں کے وسائل اِتنے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی مشکلات کو لے کر ہم تک پہنچ سکیں ، تو کیوں نہ ایسا کیا جائے کہ میں خود ان تک پہنچوں، ان کے مسائل سنوں اور جس حد تک بھی ممکن ہواِنہیں حل کروں۔
اس مشن کو مدنظر رکھ کر میں نے پنجاب کے تمام اضلاع کے دورے شروع کیے اور الحمدللہ آج جب ایک سال مکمل ہو رہا ہے تو میں اب تک 24 اضلاع کے دورے اپنی ٹیم کے ہمراہ کر چکی ہوں۔ان تمام اضلاع میں میں نے خود "ہمارے پروگرام" کے حوالے سیدورے کیے ، رجسٹریشن کے عمل سے لے کر رقم کی منتقلی کے تمام عوامل کو خود جانچا اور لوگوں خصوصاًسکول کی  بچیوں سے ان کے مسائل سنے اور انہیں حل کروانے کیلئے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ, کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز سے ملاقاتیں کیں۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ حکومت کی طرف سے بنایا گیا کوئی بھی منصوبہ تب تک کامیابی سیمکمل نہیں ہو سکتا اور عوام کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہماری ضلعی انتظامیہ اس کی پوری طرح ذمہ داری نہ لے اور اس کو نافذ العمل نہ کروائے۔
پنجاب بھر میں وزیراعلی پنجاب کا سب سے بڑا اقدام پنجاب سوشیو اکنامک رجسٹری کا ہے ، جس کے حوالے سے میں نے پنجاب کیتمام اضلاع میں پی ایس اِی آر کے رجسٹریشن سینٹرز کا دورہ کیا۔ وہاں پر بریفنگ لی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ رجسٹریشن پنجاب میں رہنے والے تمام افراد کروائیں اور حکومت کاپی ایس اِی آر سے متعلق یہ پیغام سب تک پہنچے ،اگر اس پروگرام میں کوئی جھول ہے، جیسے کہ کئی جگہ پر مجھے یہ شکایت ملی کہ بیوہ خواتین کو رجسٹریشن میں مسئلہ ہو رہا ہے کیونکہ ان کے گھر کا سربراہ نہیں ہے تو ایسے مسائل کوفور اً حل کروانے کے لئیے اِقدامات کئیے۔
نئی زندگی پروگرام جو کہ تیزاب گردی کا شکار ہونے والے افراد کے لیے حکومتی سطح پر پورے پاکستان میں صرف حکومت پنجاب کا پروگرام ہے اور اس میں اگر پورے پاکستان میں کہیں پر بھی کوئی شخص تیزاب گردی کا شکار ہو جائے اور وہ پنجاب کے سات برن سنٹرز میں سے کہیں پر بھی علاج کروانا چاہے تو ہمارے پروگرام کے تحت اس کا بالکل مفت علاج ہوگا ،جب تک کہ وہ ٹھیک نہیں ہو جاتا۔ میں نے سات برن سینٹرز میں سے پانچ برن سینٹرز میں نئی زندگی پروگرام کے تحت تیزاب گردی کا شکار افراد کے علاج معالجے کا آغاز کیا ،وہاں پر موجود ڈاکٹروں سے بریفنگ لی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جو پیسے حکومت پنجاب نئی زندگی پروگرام کے تحت دے رہی ہے وہ ان مریضوں کے علاج پر خرچ ہوں۔
اور پھر میرے دل کے قریب سب سے بڑا قدم جو میں لینا چاہتی تھی وہ حکومت پنجاب کی پہلی سوشل پروٹیکشن کانفرنس کا انعقاد تھا۔اس کے لیے ہم نے اپنے تمام گزشتہ کئیے ہوئے اقدامات کو اکٹھا کیا ،مستقبل میں پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کیا کرنا چاہتی ہے ،حکومت کا سوشل پروٹیکشن کے لیے کیا نظریہ ہونا چاہیے، اس میں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے اور کس طرح کے دیگر پروگرام شامل کیے جا سکتے ہیں ,،ہم آج تک کیا کر چکے ہیں اور حکومت پنجاب کے دیگر محکموں کے ساتھ مِل کرہم اپنے ٹارگٹس کو کیسے پورا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے پہلی بار پنجاب سوشل پروٹیکشن کی کانفرنس کاانعقاد، پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے توسط سے کروایا گیا۔ الحمدللہ یہ ہمارا اعزاز ہے کہ یہ انتہائی کامیاب کانفرنس ہوئی۔
سوشل پروٹیکشن یعنی سماجی تحفظ میں خوبصورتی تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اس تحفظ کو لوگوں کو بلا کسی سیاسی اور مذہبی تفریق کے فراہم کریں اور ہمارے کام کا سب سے بڑا طرہ امتیازصرف یہ ہے کہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی ،حکومت پنجاب صرف یہ دیکھتی ہے کہ جو شخص ہمارے پاس رجسٹریشن کے لیے آیا ہے کیا وہ اہلیت کے معیار پر پورا اتر رہا ہے۔ پھر اس کی جنس کیا ہے اس کا کس سیاسی جماعت سے تعلق ہے اس کا کس مذہب سے یا کس فرقے سے تعلق ہے ہم یہ نہیں دیکھتے۔ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا تعلق پاکستان سے ہے.ان تمام پروگراموں کو عوام تک پہنچانے، رجسٹریشن اور رقم کی شفاف منتقلی میں حائل مسائل کو حل کرنے اور شکایات کے ازالے کے لیے ہم نے سوشل پروٹیکشن ہیلپ لائن1221 بنا رکھی۔ 
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ کوئی بھی فرد اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے تمام افسران اور میری ٹیم نے بھرپور محنت، لگن اور ذاتی دلچسپی کے ساتھ ان تمام اقدامات اور پروگرامز کی تکمیل میں میری بھرپور معاونت کی ہے، جس کے لیے میں تہہ دل سے ا?ن کی شکر گزار ہوں اور انشاء اللہ عوام کی خدمت اور ان سے محبت کا یہ سفر جاری و ساری رہیگا۔

جہاں آراء منظور وٹو

ای پیپر دی نیشن