آزاد عدلیہ کے لئے وکلا تحریک!!

Oct 17, 2024

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

  پاکستان میں ان دنوں عدلیہ پر اثر انداز ہونے اور مرضی کے فیصلے حاصل کرنے کیلئے آئینی ترامیم کے سلسلے میں حکومت کی طرف سے جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اس کیخلاف ملک بھر میں ہر سطح پر آواز بلند کی جارہی ہے۔خصوصاً وکلا ء کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔وکلا کی اعلی قیادت نے اس سلسلے میں بھر پور احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔یہ احتجاجی تحریک ملک گیر سطح پر چلائی جائے گی۔   پاکستان میں آج تک حکومت مخالف بہت سی تحریکیں چلائی جا چکی ہیں۔جن میں مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کے حوالے سے احتجاجی تحریک جس میں مولانا مودودی کی گرفتاری اور پھر انہیں موت کی سزا سنائی گئی جو بعد ازاں ختم کر دی گئی۔اسی طرح ایوبی مارشل لا کے خلاف تحریک، 1977ء میں بھٹو حکومت کیخلاف تحریک, پی۔ٹی۔آئی کا دھرنا اور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب مارچ وغیرہ۔ ان میں سے کچھ تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں اور کچھ ناکامی سے دوچار ہوئیں۔بہت سی تحریکیں جو ناکام ہوئیں انہیں مکمل طور پر ناکام نہیں کہا جاسکتا۔اس لیے کہ ان تحاریک نے ناکام ہونے کے باوجود شعوری بیداری کے سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ان تحاریک نے عوام کے ذہنوں میں اپنے اثرات چھوڑے۔انہی اثرات کے نتائج عام انتخابات میں بھی سامنے آئواور پھر انہی تحاریک نے ایک عرصہ بعد نئی تحاریک اور نئی سوچ کو جنم دیا۔تحریک کا مطلب سڑکوں پر ہنگامہ ارائی نہیں ہوتا بلکہ تحریک شعوری فیصلوں کے ذریعے خاموشی کیساتھ بھی اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔بعض تحریکیںجن کے انقلابی نتائج سامنے آتے ہیں تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بنیاد کسی دانشور یا راہنما نے رکھی تھی جسکا سفر کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا اور انقلاب برپا ہوگیا۔پاکستان کا قیام 1947ء میں عمل میں آیا جو بہر حال 1857ء کی جنگ آزادی اور اس کے بعد بہت سی برپا ہونے والی تحاریک، سیاسی اور عوامی جدوجہد کا نتیجہ تھا۔اس حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان تو اسی دن بن گیاتھا جب برصغیر میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔اس سے آپ کسی تحریک کے جنم لینے اور سفر کی مختلف منازل طے کرنے کی رفتار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔یہ تحریکی سفر مختلف ادوار سے گزرتا رہا تاآنکہ 1930ء میں علامہ اقبال نے جو پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل تھے، آلہ آباد کے جلسے میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک الگ اور آزاد اسلامی مملکت کے قیام کی تجویز پیش کی تھی۔جس کی عملی تعبیر بعد ازاں ایک دوسرے وکیل قانون دان قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں طویل جدوجہد کے بعد سامنے آئی۔پاکستان کا قیام تاریخ کا اہم اور نازک موڑ تھا۔پاکستان کی ترقی کا سفر ابھی پوری طرح شروع نہ ہوا تھا کہ اس نوزائیدہ ریاست کو اپنے عظیم راہنما اور قائد کی ناگہانی وفات کے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ان کے بعد ہچکولے کھاتے پاکستان کی تاریخ کا سفر جاری رہا اگرچہ ہر مرحلے پر پاکستان نازک موڑ پر ہی کھڑا نظر آیا۔جمہوری پراسس سے گزر کر قائم ہونے والی مملکتِ خداداد میں کبھی بھی جمہوریت مضبوط اور توانا نہ ہوسکی۔جمہوریت کا نام تو لیا گیا۔اسی حوالے سے آئینی ڈھانچہ بھی تشکیل دیا گیا مگر اسکی اس طرح سے پاسداری نہیں کی گئی جس طرح سے ہونی چاہیے تھی۔جمہوری عمل میں غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت تو معمول کی بات بن گئی۔حکمران اشرافیہ نے اپنے مفادات کیلئے اس آئین میں تحاریف کرنا شروع کر دیں۔جیسے جیسے آئینی ترامیم ہوتی چلی گئیں ویسے ویسے متفقہ جمہوری آئین کا حلیہ بگڑتا چلا گیا۔نتیجے میں غیر جمہوری رویوں کو فروغ ملتا چلا گیا۔اس آئین میں اب تک 25 آئینی ترامیم ہو چکی ہیں۔ان ترامیم میں ایک بھی آئینی ترمیم ایسی نہیں ہے جو عوام یا عام آدمی کی ضرورت اور مسائل کو حل کرنے کیلئے کی گئی ہو۔تمام آئینی ترامیم حکومتی طبقات کے مفاد, اقتدار کی مضبوطی اور اسے طول دینے کیلئے کی جاتی رہی ہیں۔اس سلسلے میں کبھی عوامی رضا مندی حاصل کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔اب معاملہ 26ویں آئینی ترمیم تک آن پہنچا ہے۔اس آئینی ترمیم کے سلسلے میں گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوا جو کھیل رچایا گیاکسی بھی صورت میں اسکی توصیف یا تائید نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی حمایت کی جاسکتی ہے۔اس آئینی ترمیم کا مقصد عدلیہ کو پارلیمنٹ کی ایگزیکٹو اتھارٹی کے تابع کرکے مرضی کے فیصلے حاصل کر کے اپنے اختیارات میں اضافہ کرنا اور اقتدار کو غیر جمہوری طریقے سے دوام بخشنا ہے۔پاکستان میں طویل عرصے سے یہی ہوتا چلا آرہا ہے کہ پس پردہ غیر جمہوری قوتیں جمہوری اداروں کے ذریعے زبردستی عدلیہ کو مجبور کرکے ایسے فیصلے کراتی رہی ہیں جس کی سب سے بڑی مثال سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ہے جس کا اعتراف جسٹس نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی۔وی انٹرویو میں بھی کیا تھا۔یہ کسی ایک دور کی بات نہیں ہر دور کی بات ہے۔عدلیہ کی آزادی ہمیشہ سے ایک سوال رہی ہے۔اب یہ سوال اس وقت شدت اختیار کر گیا جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے اس دباؤ کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا۔اس میں مزید شدت اس وقت آگئی جب سپریم کورٹ کی طرف سے اسے ماننے سے انکار کر دیا گیا۔حکومت یا حکمران طبقے کو جب محسوس ہوا کہ اب عدلیہ سے مرضی کے فیصلے نہیں لیے جاسکتے اور عدلیہ آزادی کیساتھ انصاف کے تقاضوں کیمطابق فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو پھر آئین کی 26ویں ترمیم کا بل پارلیمنٹ میں لانے کا فیصلہ کیا گیا۔موجودہ سپریم کورٹ آئینی عدالت کے ماتحت ہوگی جس کے ججز کی تقرری کا اختیار ایگزیکٹو یعنی وزیر اعظم کے پاس کے پاس ہوگا گویا سپریم کورٹ سے لیکر عام عدالت تک کے تمام ججز کی تقرری و تبادلے اور جزا و سزا کا اختیار وزیر اعظم کو دے دیا گیا ہے دوسرے الفاظ میں آزاد عدلیہ کے تمام پر کاٹنے کا منصوبہ تیار کیا جا چکا ہے۔ آئینی ترامیم کی شقوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو روح کانپ جاتی ہے کہ کس طرح عوام کے بنیادی حقوق، جمہوریت،عدلیہ اور انصاف کا گلا مکمل طور پر گھونٹنے کی تیاری ہے۔عدالتی انصاف کو صرف حکمران طبقے کیلئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔عام آدمی انصاف کے دروازے پر دستک دے گا بھی تو اسے حکومتی مفاد کیخلاف انصاف ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ہے وہ ساری صورتحال جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ, عدلیہ و وکلا اور اسٹیبلشمنٹ باہم برسرِپیکار نظر آرہے ہیں جبکہ یہی وہ ادارے ہیں جو کسی ریاست کا ستون ہوتیہیں۔اگر یہ ادارے باہمی اختلافات کے سبب کمزور ہونگے تو ریاست مضبوط کیسے ہوگی؟ ان حالات میں وکلا نے آئین کی بالا دستی اور عدلیہ کی آزادی کیلئے اور مجوزہ آئینی ترامیم کے نفاذ کو روکنے کے سلسلے میں ایک بھر پور تحریک چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔عدلیہ کیلئے وکلا کی پہلی تحریک چیف جسٹس کی بحالی کیلئے چلائی گئی تھی جو کہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی تھی جبکہ یہ تحریک آئین کی بالا دستی قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی ،عوام کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کی تحریک ہے یہ اس ریاست کے مضبوط ڈھانچے کو تشکیل دینے کی تحریک ہے جس کا خواب ایک وکیل نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر بھی ایک وکیل کی جدوجہد کا ثمر تھی۔گویا وکلا تحریک پاکستان کو جمہوری سفر پر گامزن کرنے کی تحریک ہے یہ تکمیل پاکستان کی تحریک ہے۔

مزیدخبریں