جمعرات،13ربیع الثانی 1446ھ17اکتوبر 2024

Oct 17, 2024

مولانا فضل الرحمن بھی آئینی ترمیم کے مسودے پر آمادہ ہو گئے۔ 
 جناب غالب نے اپنے اسد والے تخلص کے ساتھ کیا خوب کہا تھا۔
لے تو آئے ہیں اسد آج انہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں۔
 تو جناب حکومت والے ترمیم کے مسئلے پر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے والے مولانا کو زیر دام لانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔جس کیلئے پی ٹی آئی کی ٹیم بھی پوری تیاری کے ساتھ ان سے ملتی تھی۔ اسد قیصر، گوہر ، عمر ایوب، محمود خان اور خود بانی کو پوری امید تھی کہ اس بار وہ مولانا کو گھیر لیں گے اور حکومتی وفود خالی ہاتھ ، منہ دیکھتے رہ جائیں گے لیکن دیکھ لیں آدمی سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ آخری معرکہ بلاول بھٹو زرداری کی پے درپے ملاقاتوں نے جیت ہی لیا۔ یہ قلعہ جس طرح انہوں نے جیتا وہ قابلِ تعریف ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری نے اپنے فرزند دلبند کی سیاسی تربیت بہتر کی ہے۔ باقی زمانہ، حالات و واقعات خود بہت کچھ سکھا اور سمجھا دیتے ہیں۔ اب کہا جا سکتا ہے۔ 
کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی 
مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا۔
گزشتہ شب فضل الرحمن نے میڈیا کے سامنے نجانے کس منہ سے یہ کہا کہ وہ آئینی ترمیمی مسودے پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس سے حکومتی کیمپوں میں اطیمنان کی لہر دوڑ گئی۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے وہاں جو بے آرامی و بے اطمینانی پائی جاتی تھی اب ختم ہو گئی۔ دوسری طرف اپوزیشن کے خیموں میں جو آرام و سکون تھا وہ اب رخصت ہو رہا ہے۔ اب بیرسٹر گوہر، اسد قیصر، عمر ایوب اور محمود خان اچکزئی حیران کھڑے ہیں کہ آخر ان کی طرف سے ایسی کیا کمی رہ گئی تھی خاطر مدارت میں کہ فضل الرحمن نے اس کا یہ صلہ دیا اور مخالفین کے کیمپ میں جا کر بیٹھ گئے۔ اب یہ بات طے شدہ لگتی ہے کہ آئینی ترمیم کا یہ بل اپنی اچھائیوں اور برائیوں سمیت جلد ہی منظور ہو گا۔ جتنی تاخیر ہونی تھی وہ ہو چکی۔ مولانا کو آمادہ کرنے پر جتنا زور لگایا گیا ، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا کتنے بھاری بھرکم ہیں۔ انہیں راضی کرنا اکیلے کسی بندے یا جماعت کے بس کی بات نہیں تھی۔ اب پی ٹی آئی والے کوئی نیا قلعہ تلاش کریں گے ، جہاں بیٹھ کر حکومتی مورچوں پر بمباری کر سکیں۔ 
٭٭٭٭٭
کراچی چڑیا گھر کے جانور بھوک اور بیماریوں سے نڈھال، 20 سال قبل منظور شدہ ایک ارب روپے ابھی تک نہیں ملے 
جہاں انسانوں کو خوراک اور صحت کے وسائل دستیاب نہ ہوں وہاں جانوروں کی بستی کی فکر کس کو ہو گی، جہاں کم خوراک اور طبی سہولتیں نہ ملنے کی وجہ سے ہر سال سینکڑوں بچے جان سے گزر جاتے ہوں۔ وہاں کسی ، ہرن ، بندر، لنگور، ریچھ اور شیروں کے کھانے کی فکر کس کو ہو گی۔ خبر یہ ہے کہ آج سے صرف 20 سال قبل حکومت سندھ کی طرف سے چڑیا گھر کے جانوروں کی خوراک ، بئے جانوروں اور ادویات کی خریداری کے لیے ایک ارب روپے دئے گئے۔ مگر آج تک وہ نہیں ملے۔ نجانے کس کس کے پیٹ میں اور جیب میں چلے گئے کہ آج چڑیا گھر کے جانوروں کی حالت دیکھ کر ترس آتا ہے۔ دکھ ہوتا ہے کہ وہ نہایت لاغر، کمزور ہو چکے ہیں۔ بھوک اور مختلف بیماریوں نے انہیں نچوڑ کر دیا ہے۔ وہ بمشکل زندہ رہنے کے لیے سانس لیتے ہیں۔ بیماریوں نے ان کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اگر 20 سال پہلے دئیے گئے پیسے منزل مقصود پر پہنچ جاتے تو اس سے کم از کم کچھ تو ان شکایات کا ازالہ ہو سکتا تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے چڑیا گھر کی یہ حالت قابلِ افسوس ہے۔ نہ کوئی نیا جانور لایا جا سکا نہ موجودہ جانوروں کی حالت بہتر ہو سکی۔ انسان تو چلیں سڑکوں پر نکل کر ٹائر جلا کر سڑکیں بلاک کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکتے ہیں مگر یہ بے زبان جانور کس سے فریاد کریں۔ کس کے آگے روئیں ان کی کون سْنے گا۔ یہاں تو انسانوں کی کوئی نہیں سنتا۔ وہ خوراک ، صحت اور تعلیم کے ساتھ روزگار اور مکان اورلباس کو ترستے ہیں۔ ہاں ایک بات یاد رکھیں کہ ان بے زبانوں کی فریاد براہ راست خدا وند کریم تک پہنچتی ہے۔ اب اس سے پہلے کہ آسمان والا ان کی فریاد پر کوئی سخت فیصلہ کرے، حکومت سندھ ازخود اس ایک ارب روپے کا سراغ لگائے کہ کہاں گئے ہیں اور وہ رقم حق بحق دار رسید کے مصداق اصل مستحقین یعنی چڑیا گھر تک پہنچائے تو یہ بے زبان جانور دعائیں دیں گے جو لگ گئی تو آئندہ کئی سال بھی سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت برقرار رہ سکتی ہے۔ ورنہ اگر وہ عرش کو ہلا گئی تو پھر کچھ پتہ نہیں چشم زدن میں کیا ہو جائے۔ 
٭٭٭٭٭
برج الخلیفہ پر سال نو کی آتشبازی اور فواروں کا رقص دیکھنے کیلئے ٹکٹ لینا ہو گی
 چلو جی اب عربوں نے دبئی کی شان و شوکت کی علامت اس عمارت کو بھی اپنا کمائو پوت بنا لیا ہے۔ پہلے لوگوں کو اس کے حسن و جمال کا عادی بنایا گیا۔ ہر سال لاکھوں سیاح دبئی آتے ہیں اور لازمی یہ لوگ برج الخلیفہ دیکھنے جاتے ہیں۔ خاص طور پر سال نو کے موقع پر تو یہاں ہونے والی آتشبازی لندن، نیویارک، پیرس کی آتشبازی اور سال نو کی تقریبات کو مات دیتی نظر آتی ہے۔ دنیا بھر سے لاکھوں افراد یہاں آتے ہیں رنگ و روشنی میں نہائی اس عمارت کا حسن دیکھتے اور اس کے اردگرد بنے تالابوں میں لگے رنگ برنگے فواروں کے رقص سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اب عرب بھی تو آخر شیخ ہی ہوتے ہیں۔ اب انہیں کمانے کا فن آ گیا ہے۔ اونٹ سے لے کر تیل اور اب جدید شہروں اور عالی شان عمارتوں ، صحرا ئی بود وباش کو بھی انہوں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ کوئی بْری بات ہے ساری دنیا میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ کاروبار ترقی کر رہا ہے تو عرب کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ 
چنانچہ اب دبئی میں سال نو پر جو لوگ یہاں ہیں نیوائیر نائٹ منانے آئیں گے انہیں اب مفت میں برج الخلیفہ کی رونقیں قریب بیٹھ کر دیکھنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ ٹکٹ لے کرہی یہ نظارہ دیکھ سکیں گے۔ اب تو ریاض ، قطر، شارجہ وغیرہ بھی سیاحتی لحاظ سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں شامل ہو رہے ہیں۔ گویا مشرق وسطیٰ میں ایک ریس لگی ہوئی ، دنیا بھر میں اپنے شہروں کو نمایاں کرنے کی اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے بھی نظر آ رہے ہیں۔ مگر جو فوقیت دبئی کو حاصل ہے وہ اس میں حق بجانب ہے۔ وہاں کے ہوٹل ، شاپنگ مالز سیر و تفریح کے جو مواقع موجود ہیں وہ خودبخود دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں وہاں کے قدرے آزاد ماحول کے علاوہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال بہترین ہے یوں کاروباری اور سماجی زندگی رواں دواں ہے۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں