حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو ممکنہ منی بجٹ کے لیے تجاویز سے آگاہ کر دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی دستاویز کے مطابق، ٹیکس ریونیو میں شارٹ فال کی صورت میں 130 ارب روپے کے ہنگامی ٹیکس اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔ میٹھے مشروبات یا شوگر والے ڈرنکس پر 5 فیصد ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس سے حکومت کو ماہانہ 2.3 ارب روپے اضافی ریونیو حاصل ہوگا۔ مشینری کی درآمد پر 1 فیصد ایڈوانس ٹیکس سے ماہانہ 2 ارب روپے حاصل ہوں گے۔ صنعتی خام مال کی درآمد پر 1 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس سے ماہانہ 3.5 ارب روپے ٹیکس کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ کمرشل امپورٹرز پر 1 فیصد ٹیکس سے ماہانہ 1 ارب روپے حاصل ہونے کا امکان ہے۔ سپلائیز پر بھی 1 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ ٹھیکوں پر بھی 1 فیصد اضافی ٹیکس کی تجویز رکھی گئی ہے۔ حکومت مسلسل ایسے اقدامات کررہی ہے جن کا مقصد آئی ایم ایف کو یہ یقین دلانا ہے کہ اس کی تمام شرائط کو من و عن تسلیم کیا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے منی بجٹ لانا معاشی بوجھ کے تلے دبے ہوئے عوام پر مزید مہنگائی مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ گزشتہ روز ڈیزل اور گھی کے نرخ بھی بڑھ گئے۔ عوام کو زندہ درگور کرنے کی پالیسی عوامی اضطراب بڑھا سکتی ہے جس سے حکومت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر ملکی اداروں سے قرض لے کر ہم کب تک اشرافیہ اور بیوروکریسی کے اللے تللے پورے کرتے رہیں گے؟ حکومت کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ یہ ملک سرکاری خزانے سے اشرافیہ اور بیوروکریسی کی شاہ خرچیوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔