امیر محمد خان
پاکستان میں یہ ہفتہ پاکستان کے سفارتی حوالوں اور معیشت کے حوالوں سے شاندار رہا ، ایک طرف شنگھائی کانفرنس کے انعقاد کی گہماگمی نے یہ ثابت کیا کہ گزشتہ سالوں میں جب پاکستان کو احساس ہورہا تھا کہ وہ دنیا میں سفارتی تعلقات کے حوالوںسے تنہائی کا شکار ہو چلا ہے اسکا احساس خاص طور جب ہم کشمیر کی بات کرتے ہیںتو ہمیں ہوتا ہے کہ دنیا ہماری بات نہیں سن رہی اور ہندوستان کا پلڑا بھاری ہے اسلئے وہ کشمیر میں سنگین انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے اور دنیا نے اپنے کانوں میں روئی اور آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی ہے ، اس تنہائی کے تاثر کی ذمہ دار ہماری اندرونی سیاسی لڑائیا ں تھیں اور تاحال ہیں ہم اپنے آپ کو معزز قوم کہتے ہوئے مشکلات کا سامناکرتے ہیں ، میاںشہباز شریف ، عسکری قیادت ، اتحادی جماعتوںکی محنتوںسے اسکے باوجود کہ ہمارے اندر کچھ علاقوں میںدہشت گرد اپنا مسکن بنائے ہوئے ہیںایک شاندار اور کامیاب استقبالیادیا شنگھائی کانفرنس کے شرکاءنے پاکستان کی میزبانی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ، اور پاکستان کی وزارت داخلہ نے تمام تر محنت کے ساتھ اسلام آباد کو غیرملکی مہمانوںکو خوش آمدید کہنے کی راہ ہموارکی ۔ اڈیالا جیل میں سزاوںکے منتظر قیدی سے ملاقاتوں پر پابندی لگا کر افراتفریح والے بیانات بند کئے گئے ، اسلام آباد پر چڑھائی کی دھمکی دینے والے وزیر اعلیٰ سرحد بھی چڑھائی کا انجام دیکھ چکے ہیں اور دنوںمرتبہ انہوںنے خودساختہ غائب ہونے کا تماشہ کیا ۔ پی ٹی آئی کی وکلاءقیادت اور پی ٹی آئی کے وہ رہنماءجو چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی توڑ پھوڑ کی سیاست کو چھوڑ کر ایک سیاسی جماعت ہونے کا کردار ادا کرے انکی محنت سے شنگھائی کانفرنس کے دوران کسی بھی قسم کے مظاہرے سے اجتناب کرنے کا عندیہ دیا جو ایک سیاسی جماعت کا خوش آئیند اقدام ہے ، پاکستان
مسلم لیگ ہو یا پی پی پی وہ بھی سیاسی جماعتیںہیں اور سیاسی جماعتوںکی موجودگی جمہوریت کا حسن ہے پی ٹی آئی نے کچھ شرپسندوں بشمول اسکے کپتان اور اس کی شاباشی کے شوقینوں نے عوام مین سیاسی جماعت کا تعارف ایک شرپسند اور جھوٹے وعدوں ، بیرونی دنیا میں پاکستان دشمنی پر مبنی شیطانی سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کو ایک ناکام ریاست ، سیاست سے بھر پور عسکری طاقت رکھنے والا ملک ظاہرکیا ، اپنی بد زبانی میں کسی کی بیٹی ، اور خاندان کو نہیں بخشا ، حالیہ شنگھائی کانفرنس کے دورن بھی بلیک میلینگ کے طور پر کہا گیا کہ کانفرنس کے دوران میں ہم مظاہرے کرینگے ، خیر وہ مظاہرے کرتے تو وزارت داخلہ انہیں کیا کرنے دیتی اور کیانہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگر پی ٹی آئی کی امن پسند قیادت کا یہ فیصلہ کہ ہم معزز غیر ملکی مہمانوںکی موجودگی میں کوئی ”گند“نہیں ڈالینگے ایک مستحسن اور قابل ستائش فیصلہ ہے اسکا مطلب ہے کہ اس جماعت میں سب ہی 9مئی والے نہیں یا ہیں تو وہ اب اس اقدام پر شرمندہ ہوکر سیاست کرنا چاہتے ہیںاب حکومت کا بھی فرض ہے جو لوگ واقعی ہی 9 مئی یا اس ذہن کے لوگ قید ہیں انکا فیصلہ کرے واضح ثبوت ہونے کے باوجود بھی عدالتوں سے انکی رہائی سزاﺅں میں ایک سال ہونے کے بعد تاخیر ہر ذی شعور ک سوچ سے بالا تر ہے ۔ اس تاخیر نے مزید 9مئی والے پیدا کئے ہیں یا انہیں حوصلہ دیا ہے پی ٹی آئی کی امن پسند اور سیاست کرنے کے شوقین کو اب حکومت کی ذمہ داری ہے انہیںخندہ پیشانی سے پارلیمانی سیاست کرنے دے ۔ آئینی ترامیم جو بھی ہیں اس سے عوام کو کوئی غرض نہیں انہیں کسی بھی ترمیم سے روزگار یا روٹی نہیں ملے گی ، یہ ترامیم تو سیاست دان خود مستقبل میں اپنے تحفظ کیلئے کررہے ہیں ۔ پاکستان میں منعقدہ بین الاقوامی اور علاقائی کانفرنسوں کی تاریخ ملک
کی عالمی اسٹریٹجک اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اسلامی یکجہتی کانفرنسوں سے لے کر سارک اور ایس سی او کے زیرِ سایہ علاقائی اجلاسوں تک، ان تقریبات نے پاکستان کو علاقائی استحکام، اقتصادی ترقی، اور عالمی سفارتکاری میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ ان کانفرنسوں کا اثر پاکستان کی خارجہ پالیسی پر مسلسل پڑتا آ رہا ہے، خاص طور پر اپنے ہمسایہ ممالک اور اہم عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے۔کانفرنس اور شاندار استقبالیوںکی خبروں میں عوام کی نظر ہی نہیںگئی کہ سابق وزیر اعظم عوام کے دلوںمیں راج کرنے والے میاںنواز شریف مشرف مرحوم کی دشمنی میں بھارتی صحافی کو دئے جانے والے انٹرویو میںکیاکہہ گئے انہیں اپنی دور وزارت اعظمی میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ کئے جانے والا اعلان لاہور یادآگیا اورانہوںنے کارگل حوالے سے کہہ دیا کہ پاکستان نے اس معاہدے کو توڑا جسے نہ صرف ہندوستانی میڈیا نے خوب اچھالا ،بلکہ ہمارے ”محب وطن “میڈیا نے بھی صفحہ اول پر جگہ دی ، یہ ٹھیک ہے کہ اسوقت کی فوجی حکمت عملی کی وجہ سے افواج پاکستان نے 5000 میٹر کی برف سے ڈھکی پہاڑیوںمیں جنگ کی اور بھارتی افواج کو دھکیل دیا ، پاکستان نے ہندوستان کو عالمی دباﺅ میں آکر فتح کیا جانے والا علاقہ واپس کیا اور سرتاج عزیزمرحوم نے بھارت جاکر معذرت کی ، مگر بھارتی صحافی سے انٹرویو میںاگر میاںصاحب کشمیری ہونے کا حق اد اکرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے کہ اسکے بعد بھارت کشمیر میں جو کچھ کررہا ہے وہ بھی تو اسی اعلان لاہور کی خلاف ورزی ہے بلکہ سنگین خلاف ورزی ہے میاںصاحب کے ان دو الفاظوں سے کشمیری بھی اور پاکستان کے عوام بھی خو ش ہوتے ۔ شنگھائی کانفرنس اور آئینی ترامیم کے شور غل میں تمام تر وعدوں وید کے باوجود پاکستان دشمن پشین کالعدم تنظیم کا جرگہ ہوا جس میں مجیب الرحمان کی پاکستان اور پاکستانی فوج دشمن بیانات پر مبنی تقاریر ہوئیں اس جرگے کی اجازت اور اپنے آپ کو قابو رکھنے میں رکھنے کاذمہ وزیراعلیٰ گنڈاپور نے لیا تھا کہ ان کو جا کر منا لوں گا۔ اور وہاں 10 یا 20 ہزار کے مجمع میں بیٹھے کسی سیاست دان اور حکومتی فرد نے پشین کی بکواس پر اسے ٹوکا تک نہیں۔ جواب تک نہیں دیا۔ کم از کم اٹھ کر باہر ہی آجاتے۔ کسی بھی ملک کے توڑنے کی کوئی باشندہ بات کرتا ہے تو اسے غدار کہا جاتا ہے‘ ہمارے ہاں پابندی ہے‘ ایسا نہ بولو۔ شاید یہی بات ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی بھی شیخ مجیب کو ہیرو قرار دیتے تھے۔ اب جو جرگہ میں کہا گیا وہ تو 1947ءکے بعد سے آج تک پاکستان کو تسلیم نہ کرنے والے شکست خوردہ عناصر کہتے آرہے ہیں۔ ملکی سلامتی کے محافظ ادارے یعنی فوج کو ان کے من پسند علاقے سے نکالنے‘ ڈیورنڈ لائن ختم کرنے‘ آرپار جانے اور تجارت یعنی اسلحہ اور منشیات کے سمگلنگ کی کھلی چھوٹ دینے‘ علاقے میں اپنی مرضی کے قوانین اور عدالتیں بنانے‘ اپنا لشکر تیار کرنے کا اعلان کیا علیحدگی کی سازش نہیں؟۔یہی کچھ مشرقی پاکستان میں رچایا گیا۔نا انصافی اورظلم کی کہانیاں گھڑکر بنگالیوں کو گمراہ کیا گیا اب۔طورخم سے چمن تک اپنی من مانی،فوج کو نکالنےکی باتیں کیا ریاست کے اندر ریاست کا باغیانہ اعلان نہیں۔ جرگے میں کسی کو ہمت نہیں تھی‘ پاکستان کی دھرتی پر اپنا پرچم لہرائے۔ ا پاکستان میں رہ کر کسی کو ملک سے نفرت‘ فوج سے نفرت‘ پرچم سے نفرت‘ آئین سے نفرت‘ قانون سے نفرت حتیٰ کہ عوام سے نفرت کا درس دینے کی اجازت نہ دی جائے۔ اب کہاں گئے وہ لوگ اور مذہبی و سیا سی جماعتیں جو دن رات استحکام پاکستان کانفرنسں کرتے نہیں تھکتیں۔ وہ ان ذہنی گمراہو ں کے خلاف منہ کیوں نہیں کھولتے۔