آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے, نابیناوں کا عالمی دن

 
 (شاہد بخاری)
 21ویں صدی کے تقاضوں اور نابینا ئی کے حوالے سے ہم یہی توقع کرسکتے ہیں کہ انسانیت بے بصر حضرات کو زیادہ دیر تک نظر انداز نہیں کر سکے گی۔ ان کے مسائل کا کوئی نہ کوئی ایسا حل ضرور تلاش کر لیا جائے گا جہاں وہ اپنے نابینا احباب کے ساتھ زندگی کی کئی سہولتوں سے مساوی طور پر بہراور ہو سکیں گے اگر بیسویں صدی نے کورنیا گرافٹنگ کو ممکن بنا دیا ہے تو 21ویں صدی Detachment Retinal پر بھی قابو پا سکتی ہے اور ایسا ممکن ہے کہ ہر بے بصر بصارت کی نعمتوں سے فیض یاب ہو سکے۔
 زندگی دیکھنے میں بڑی دل پذیر اور دل خوش کن ہے۔لیکن بسا اوقات اس کی مشکلات اور اس کے عذاب انسان کو بے بس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ :
بے بصروں کی سنو گے تو لرز جاو¿ گے
انھوں نے ہے کاٹی، کیسے زندگی ؟؟
 مگر قدرت نے ایسی صلاحیتیں بھی انسان کو دے رکھی ہیں کہ وہ اگر ہمت کرے تو جانے کتنے پہاڑ سر کر سکتا ہے کتنے دریا عبور کر سکتا ہے۔
 بصارت سے محرومین کا عالمی دن 15 اکتوبر کو تمام دنیا میں بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس دن کا اغاز 1964ءمیں یو۔ این۔ او۔ کی ایک قرارداد سے ہوا تھا، جس کا مفہوم یہ ھے کہ وہ لوگ جو بینائی سے محروم ہیں ان کی ہمتیں بڑھائی جائیں۔ انہیں زیور علم سے آراستہ کیا جائے اور اس قابل بنایا جائے کہ وہ اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہو کر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسی طرح جی سکیں جیسے سب ذی حیات جیتے ھیں۔ " وائٹ کین سیفٹی ڈے" اسی عہد کی یاد دہانی ہے۔یاد رہے کہ یہ تصور محض کسی دیوانے کی بڑ نہیں۔ بینائی سے محروم افراد نے اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں کے وہ جھنڈے گاڑے ہیں کہ کبھی کبھی بینائی بھی ان سے شرمندہ ہو جاتی ہے۔ ہیلن کیلر ڈاکٹر طہٰ حسین،اور ان کی خدمات سے کون واقف نہیں؟ انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا جو کسی معجزے سے کم نہیں۔خود ہمارے وطن عزیز میں پروفیسر ڈاکٹر اقبال(تمغہءامتیاز) کی مثال ہمیں نئی زندگی عطا کرتی ہے۔
 آپ پہلے نابینا ایم اے انگلش، پہلے نابینا ایم فل، گولڈ میڈلسٹ، پہلے نابینا پی ایچ۔ ڈی، پہلے نابینا لیکچر ارھیں جنھوں نے 1968ءسے جی۔سی۔ سرگودھا میں پڑھانا شروع کیا اور ابھی تک درس و تدریس میں مصروف ہیں۔ آپ سابق پروفیسر پنجاب یونیورسٹی، لاہور،چیف ایڈیٹر سفید چھڑی،بانی صدر علمی ادبی تنظیم بزم فکروخیال سرگودھا، سابق صدر پاکستان ایسوسی ایشن آف دی بلائنڈ نیشنل کراچی، سابق صدر پاکستان ایسو سی ایشن آف دی بلائنڈ پنجاب لاہور،ھیں۔
 ڈاکٹر اقبال کی نثری اور شعری تخلیقات 24 کے لگ بھگ ہیں۔ان کی شخصیت اور فن کے متعلق 5 جرائد شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر دو کتب لکھی جا چکی ہیں۔ ایم فل کی سطح کے 4 تحقیقی مقالہ جات، شخصیت اور فن پر مضامین و مقالات دو صد سے زائد لکھے جا چکے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال اردو انگریزی فارسی اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ 
 اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد نے پاکستانی ادب کے معمار سیریز میں ”پروفیسر ڈاکٹر شیخ محمد اقبال شخصیت اور فن“ پر کتاب، راقم شاہد بخاری سے لکھوائی ہے۔
 پاکستان ایسوسی ایشن اوف دی بلائنڈ، ڈاکٹر اقبال نے 1979ءسے قائم کر رکھی ہے، جس کا ہیڈ آفس 13۔لالہ زار پارک فاروق کالونی یونیورسٹی روڈ سرگودھا میں ہے۔ یہ ضلع بھر کے نابیناو¿ں کی نمائندہ اور رجسٹرڈ تنظیم ہے جو گزشتہ 45 برس سے نابینا افراد کی تعلیم، بحالی اور ان کے مختلف مسائل کو حل کرنے کی حتی المقدور کوشش جاری رکھے ہوئے ہے تنظیم کا زیادہ تر انحصار عوامی امداد پر ہی ہے مگر خواص کی نظر کرم ان کی مساعی جمیلہ پر کچھ خاص نہیں پڑ سکی۔ تنظیم کے پاس 9کینال قطع اراضی بلاک Yنیو سیٹلائٹ ٹاو¿ن میں موجود ہے،جس پر ایک مسجد اور 12 کمروں کا ایک BLOCK تعمیر کیا گیا ہے، جہاں نابیناو¿ں کے طعام و قیام اور تعلیم و تربیت کی تمام سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔وہاں نابینا،نابیناو¿ں کو کمپیوٹرز او پریٹ کرنا بھی سکھلاتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبال کا کہنا ہے کہ :
تیرے وجود کی نس نس سے آنکھ جھانکے گی 
اگر ہے ذوق تماشہ نظر کی بات نہ کر
 یاد رکھیں نابینا افراد والدین کے کسی گناہ کا نتیجہ نہیں بلکہ نابینائی ایک حادثہ ہے جس سے کوئی بھی دو چار ہو سکتا ہے۔ آپ معذورین کو سہارا دیں بھیک نہیں۔ان کے پاﺅں پر کھڑا کرنے میں ان کے آپ مدد گار بنیں۔
 نابیناو¿ں کے مسائل کا اندازہ آپ صرف پانچ منٹ انکھیں بند کر کے لگا سکتے ہیں۔ نہ ہی آپ اپنی ضروری چیز ڈھونڈ سکتے ہیں اور نہ ہی کہیں بہ آسانی آپ آ۔جا سکتے ہیں۔ ایسی زندگی بہت دکھ بھری ہوتی ہے اگر معاشرہ مہربان ہو لوگ معذورین کی مشکلات کو سمجھیں۔ صاحب اقتدار اور دولت مند معذورین کے لیے تعلیم و تدریس اور علاج معالجے کا اہتمام کریں انہیں ہر ممکن سہولت دیں تو وہ بھی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو کر اپنے روزی کمانے کے قابل ہو سکیں گے اپنی زندگی آرام سے گزار سکیں گے، معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے وہ اس کا مفید حصہ بن سکیں گے معذورین کی مدد کے لیے اپ پر ڈاکٹر اقبال سے0300 4489399پرابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نابینا افراد کو معاشرتی تحفظ دیجئے۔انہیں کشکول گدائی نہ تھمایا جائے بلکہ انہیں علم و ہنر سے فیض یاب کیا جائے۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں انہیں بھی معاشرے میں وہی مقام دینا چاہیے جو ایک عام بینا فرد کو حاصل ہے۔اگر پاکستانی نابینا بچی صائمہ سلیم سی۔ایس۔ ایس کر کے عالمی شہرت حاصل کر سکتی ہے تو دیگر نابینا بچے اور بچیوں کے لیے بھی یہ ممکن ہے۔ بس آپ اپنا دل کشادہ کیجئے اور ان کی مدد کیجئے۔ ڈاکٹر اقبال کی ایک نظم”سفید چھڑی“ میں سے کچھ اشعار نذر قارئین ہیں:
 شعور ذات کی روح رواں، سفید چھڑی 
حریم دہر میں حق کی زباں، سفید چھڑی 
جو ہمتوں سے بصارت کا کام لیتے ہیں 
انہی کے عزم کی ہے ترجماں سفید چھڑی
 نہ جانے کتنے اندھیروں کو شرم سار کیا 
جہاد زیست کی اک داستاں سفید چھڑی 
جو دیکھ سکتے نہیں اس کی آنکھ سے دیکھیں
 ستارہ چاند کبھی کہکشاں سفید چھڑی 
اندھیرے زیست کی جب دھجیاں اڑاتے ہیں 
تراشتی ہے نئے جسم و جاں سفید چھڑی 
جہاد دہر میں ایک معتبر رفیق سفر
 خود اپنے پاو¿ں پہ چلتا جہاں سفید چھڑی

ای پیپر دی نیشن

مصنوعی ذہانت کا جہاں حیرت

 پہلے چاند پر جانے کی بات ہوتی تو لوگ حیران رہ جاتے لیکن جب انہوں نے عملی طور پر دیکھا تو انہیں یقین آیا یہ سب انسانی دماغ کا ...