ڈسکوز کی کامیاب نجکاری کیلئے حکومتی تعاون ضروری

Oct 17, 2024 | 19:07

تحریر: سید شعیب شاہ رم 

پاکستان کے پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 2.655 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے اور کچھ رپورٹس میں یہ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ گردشی قرضہ 2.8ٹریلین روپے سے تجاوز کر جائے گا۔ یہ صورتحال نظام میں موجود خامیوں کی عکاسی کرتی ہے، جس نے صورتحال مزید گھمبیر بنادی ہے۔ وزارت توانائی کے مطابق ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن (ٹی اینڈ ڈی) نقصانات کا گردشی قرض میں حصہ 596 بلین روپے ہے، جس کا وزارت سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے XWDISCOs کے بورڈ چیئر پرسنز اور چیف ایگزیکٹو آفیسرز کے اجلاس کی صدارت کی، جس میں DISCOsکی نجکاری اپریل 2025 سے شروع کیے جانے کا عندیہ دیا گیا۔

یہ خوش آئند عمل ہے کہ حکومت مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے، لیکن نجکاری کا عمل بڑا نازک ہے، جو پالیسی کے ہر پہلو پر مکمل توجہ کا طالب ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے حالیہ 7 ارب ڈالرز کا بیل آؤٹ پیکیج اسی صورت میں ملا ہے کہ مضبوط پالیسیوں اور اصلاحات کے ذریعے ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جائے گا۔

پاور سیکٹر کے لیے کس طرح کی پالیسیاں ہونی چاہیے؟ اس کے لیے ٹاٹا پاور دہلی ڈسٹری بیوشن لمیٹڈ (ٹی ڈی ڈی ایل) کی مثال دی جاسکتی ہے، جو نجکاری کی کامیاب ترین مثالوں میں سے ایک ہے۔ 2002 ء میں نجکاری کے بعد اس پاور یوٹیلیٹی نے موافق ٹیرف پالیسیوں اور حکومتی تعاون کی بدولت ترقی کی ہے جس نے کاروباری لاگت کو متوازن رکھا اور مالی استحکام کو ممکن بنایا۔

ٹی پی ڈی ڈی ایل ایک مستحکم مالیاتی ماحول میں کام کرتی ہے، جہاں اسے گردشی قرضو ں کے بوجھ کا سامنا نہیں ہوتا، جس سے کمپنی کو اپنی آپریشنل کارکردگی بہتر بنانے اور کسٹمر سروسز پر بھرپور توجہ دینے کے لیے فنڈز میسرآتے ہیں۔ نجکاری کے وقت اس کے دائرہ کار کے علاقوں میں AT&C نقصانات 53 فیصد تھے، جس میں کمی کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ یوٹیلیٹی کے لیے مقرر کردہ ٹیرف میں ان عوامل کو مدنظر رکھا گیا، جس کے نتیجے میں کمپنی نے اپنے انفرااسٹرکچر میں 1.3 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی اور دو دہائیوں میں نقصانات کو 89 فیصد تک کم کیا۔ TPDDL کو حکومت کی جانب سے سستی بجلی کی فراہمی، نقصانات کو کم کرنے کے منصوبوں کی مالی معاونت، سرکاری اداروں کی جانب سے بروقت ادائیگی، اور مستقل ٹیرف پالیسیوں کے ذریعے بھی مدد ملی، جس کا ثبوت ٹی پی ڈی ڈی ایل کا اپنے شیئر ہولڈرز کو 160 ملین ڈالرز کا منافع ادا کرنا ہے۔ TPDDL کے کیس میں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے صارفین کو بجلی کے بلوں پر سبسڈی فراہم کرنے کے لیے مالیاتی گنجائش پیدا کی، اور بجلی چوری کے مقدمات تیزی سے نمٹانے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کیں۔

جب ہم ملکی نجی پاور کمپنی کے۔ الیکٹرک کی بات کرتے ہوئے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نجکاری کے بعد اپنے AT&C نقصانات کو 40 فیصد سے کم کر کے تقریباً 20فیصد کردیا ہے، لیکن اس دوران ریگولیٹری نظام میں تبدیلیوں کے باعث سرمایہ کاری اور منافع محدود رہا۔ علاوہ ازیں نیشنل گرڈ سے بجلی کی فراہمی، نئے پاور پلانٹس کی تنصیب کی منظوری، اور حکومتی اداروں کی جانب سے ادائیگیاں چیلنج بنی رہی۔ جبکہ پاور یوٹیلیٹی کو قانونی معاونت بھی حاصل نہ ہوسکی۔ ان رکاوٹوں کے باعث کے۔ الیکٹرک نے نقصانات برداشت کیے اور اپنی آمدن کو دوبارہ سرمایہ کاری میں لگایا۔ کے۔ الیکٹرک کا شرح منافع 1.42فیصد ہے، جو صنعتی بینچ مارک کے مقابلے میں 22 فیصد سے 32 فیصد تک کم ہے، جبکہ اس نے سرمایہ کاروں کو منافع بھی ادا نہیں کیا۔ مزید برآں کے۔ الیکٹرک کو مکمل طور پر لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں دشواری کا سامنا رہا۔ پاکستان میں نجکاری کے عمل حصہ لینے والے سرمایہ کاروں کے لیے بلاشبہ یہ اشاریئے اہم ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت نظام کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے پر توجہ دے تاکہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جاسکے۔

پاور سیکٹر میں بینچ مارک مقرر کرتے ہوئے ریگولیٹری مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی، جب کہ صارفین کے لیے بجلی کی قیمت کا تعین کرتے وقت یہ توقع کی جاتی ہے کہ ڈسکوز 100 فیصد وصولی کریں گے، جو غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ ستمبر 2023 سے پاکستان میں بجلی چوری کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ 2023 میں ایک صدارتی آرڈیننس پاس کیا گیا تھا جس کے تحت ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت دی گئی، لیکن اس کی مدت ختم ہوچکی ہے اور اسے ایک باضابطہ قانون کی شکل دینے کی ضرورت ہے، تاکہ بجلی چوری کے خلاف کی جانے والی کوششیں کامیاب ہوسکیں۔

جب تک ملکی میکرو اور مائیکرو اکنامک حالات بہتر نہیں ہوتے، اُس قت تک 100فیصد وصولی ایک خواب ہی رہے گا۔ یہاں تک کہ نیشنل الیکٹریسی پالیسی 2021 کے تحت ریگولیٹر نقصانات اور وصولیوں کا ہدف مقرر کرتے وقت زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے، لیکن ریگولیٹر ان حقائق کو نظرانداز کر کے آسان راستہ اختیار کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس سے ٹیرف میں اضافہ ہوگا۔ اصل میں ٹیرف میں اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سےDISCOs کی نجکاری نہ کرنا اور ریگولیٹر کی جانب سے ایک قابل عمل ٹیرف مقرر نہ کرنا ہے، جو سرمایہ کاروں کو زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کردہ اہداف کو پورا کرتے ہوئے معقول منافع کمانے کی ترغیب دے سکے۔

نجکاری کی کامیابی کا انحصار سازگار ماحول اور حقیقت پسندانہ ٹیرف پر ہے۔ کوئی بھی انویسٹر اس صورت میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا جب زیادہ نقصانات والے DISCOsجیسے HESCO، SEPCO اور QESCO کو نقصانات کے مطابق وصولی کی اجازت نہ ہو۔ مالی سال 23ء میں ان کی وصولی کی شرح بالترتیب 74.42 فیصد، 66.50 فیصد اور 36.92فیصد تھی۔ TDPPL ماڈل کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے ابتدائی طور پر ریگولیٹر کو حقیقت پسندانہ AT&C نقصانات کے تناسب کا خیال رکھنا ہوگا اور آہستہ آہستہ ان میں کمی لانی ہوگی تاکہ انویسٹرز کو سرمایہ کاری کرنے اور صرف کارکردگی کی بناء پر منافع کمانے کا موقع مل سکے۔ اگر ریگولیٹر اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ نقصانات کے تناسب سے وصولی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، تو اس سے نجکاری کا عمل متاثر ہوگا۔ ممکن ہے کہ اچھے DISCOs، جیسے IESCO اور FESCO کی نجکاری ہوجائے، لیکن اس سے گردشی قرضوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آخر میں سرمایہ کاروں کے لیے ایک مستحکم ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہے، جس کو حکومتی حمایت حاصل ہو۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پالیسی سازی اور ٹیرف کا تعین آپریشنل حقائق پر مبنی ہو تاکہ نجکاری کی جانے والی DISCOs بھی TPDDL کی طرح ترقی کرسکیں۔

مزیدخبریں