پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں:اسٹیٹ بینک

اسٹیٹ بینک نے مالی سال 24-2023کے لیے معیشت پر سالانہ رپورٹ جاری کی ہے ۔رپورٹ کے مطابق مہنگائی مئی 2023 کی 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے کم ہوئی.مہنگائی جون 2024 میں 12.6 فیصد کی کم سطح پر آ گئی۔پاکستان کے معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں.گندم ، چاول اور کپاس کی پیداوار میں بحالی نے اہم کردار ادا کیا.کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو کر 13 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا۔ترسیلات زر اور برآمدات میں نمایاں اضافہ ریکارڈکیاگیا.اسٹیٹ بینک نے پالیسی ریٹ 22 فیصد پر برقرار رکھا ،زرمبادلہ کمپنیوں میں بھی اصلاحات متعارف کی گئیں۔اسٹیٹ  بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ معاشی استحکام برقرار رکھنے کی راہ میں متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے کاروباری ماحول سازگار بنانے کی ضرورت ہے .تحقیق و ترقی کے فروغ اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کی ضرورت ہے۔سال کے دوران شرحِ مبادلہ میں بتدریج اضافے کے ساتھ توقع سے بلند مالیاتی یکجائی مالی سال 2024ء میں سرکاری قرض اور جی ڈی پی کے تناسب میں قابل ذکر کمی پر منتج ہوئی۔رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے تقریباً پورے مالی سال 24ء میں سخت زری پالیسی اختیار کر کے پالیسی ریٹ 22 فیصد پر برقرار رکھا۔اسٹیٹ بینک نے زرِمبادلہ اور اجناس کی منڈیوں میں نظم و نسق قائم کرنے کے لیے حکومت کے انتظامی اقدامات کے بعد زرِمبادلہ کمپنیوں میں بھی اصلاحات متعارف کروائیں۔حکومت نے مالیاتی یکجائی (fiscal consolidation) جاری رکھی اور 17 سال میں پہلی مرتبہ بنیادی توازن (primary balance) میں فاضل اضافہ درج کیا گیا۔رپورٹ میں اجاگر کیا گیا ہے کہ اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے ساتھ عالمی معاشی سرگرمیوں اور تجارت میں بہتری نے کلیدی معاشی اظہاریوں پر مثبت اثرات مرتب کیے۔مہنگائی مئی 2023ء کی 38 فیصد کی بلند ترین سطح سے گھٹ کر جون 2024ء میں 12.6 فیصد پر آ گئی۔ مالی سال 24ء میں اوسط مہنگائی 23.4 فیصد رہی جو مالی سال2023ء کی 29.2 فیصد سطح کے مقابلے میں خاصی کم ہے۔مالی سال 2024ء کی دوسری ششماہی میں عمومی اور قوزی مہنگائی دونوں میں مستقل کمی نے اسٹیٹ بینک کے لیے جون 2024ء میں پالیسی ریٹ 150 بیسس پوائنٹس کم کر کے 20.5 فیصد تک لانے کی گنجائش پیدا کر دی۔ان مثبت پیش رفتوں سے قطع نظر رپورٹ اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ معاشی استحکام برقرار رکھنے کی راہ میں متعدد ساختی رکاوٹیں بدستور حائل ہیں۔ 

مزید برآں توانائی کے شعبے کی کارکردگی میں دیرینہ نقائص کے نتیجے میں گردشی قرضے کی سطح بڑھ چکی ہے، اگرچہ حکومت نے قیمتوں میں خاصے ردوبدل کے ذریعے توانائی کے شعبے کے چیلنجوں سے نمٹنے کا آغاز کر دیا ہے. تاہم شعبہ جاتی پالیسی اور ضوابطی اصلاحات کو متعارف کر کے ان کوششوں کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔یہ اصلاحات ریاستی ملکیت کے کاروباری اداروں (SOEs) کی کارکردگی میں نقائص کے مسئلے کو حل کر نے کے لیے بھی ضروری ہیں، جو مالیاتی وسائل پر مسلسل بوجھ بنے ہوئے ہیں جبکہ یہ وسائل ٹیکس تا جی ڈی پی کے پست تناسب کے باعث پہلے ہی محدود ہیں۔اس تناظر میں رپورٹ میں ’پاکستان میں سرکاری ملکیت کے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کی اصلاحات‘ کے موضوع پر ایک خصوصی باب بھی شامل کیا گیا ہے جس میں ملک میں ایس او ای اصلاحات کے تاریخی اور موجودہ تجربات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔


 

ای پیپر دی نیشن