26 ویں  آئینی ترمیم سے متعلق  وفاقی وزیر قانون کا تیار کردہ ڈرافٹ سامنے آگیا

تفصیلات کے مطابق حکومت کا آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کا فیصلہ کیا ہے۔صدر مملکت ، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف منظور کردہ ایڈوائس کو کسی عدالت یا ٹربیونل اور کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔ تجویز میں کہا گیا ہے  کہ     پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ گنا جائے گا. پارٹی سربراہ اُس کے بعد کاروائی کرسکتا ہے۔آرٹیکل 111میں ترمیم کی کی تجویز دی گئی ہے .جس کے مطابق  اب ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات صوبائی اسمبلی میں بات کرسکتا ہے۔حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز بھی دی ہے۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ  جوڈیشل کمیشن صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی جائزہ لے سکے گا۔سپریم کورٹ میں ججز تقرری میں بھی ترمیم کی تجویزدی گئی ہے۔ تجویز میں کہا گیا ہے کہ  سپریم کورٹ ججز کی تعیناتی میں چار اسمبلی ارکان کمیٹی کے ممبرزہونگے ، دو حکومت اور دو اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ ہونگے. حکومت کی طرف ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیر اعظم تجویز کرے گا، اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرے گا۔تجویز کے مطابق   چیف جسٹس کی تعیناتی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی. خصوصی کمیٹی کے 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ کے ہونگے،  کُل 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا تقرر کرے گی ،  اب موسٹ سینئر جج چیف جسٹس نہیں بنے گا. تین موسٹ سینئر ججز میں کسی ایک کا انتخاب ہوگام چیف جسٹس تعیناتی کمیٹی کی اجلاس ان کیمرہ ہوگا۔اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس کی تعیناتی  کے لئے پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور موسٹ سینئر جج ملکر چُنتے تھے، ترمیم کے بعد ان دونوں کے ساتھ ایک سینئر وکیل 15سال تجربہ ایک وفاقی وزیرممبر  ہوگا، جو وزیر اعظم کا نامزد کردہ ہوگا۔حکومت نے  آرٹیکل 184میں ترمیم کی تجویز  دی ہے ۔ حکومت  نے چیف جسٹس سے سُومو نوٹس لینے کا اختیار ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔ چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے۔حکومت نے آرٹیکل 179میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔ تجویز کے مطابق   چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی. چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے، اگرچہ 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بن گئے تو تین سال  کے بعد عہدے ریٹائر ہونا ہوگا۔ حکومت نے آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے کی تجویز دی ہے۔ سپریم کوٹ میں آئینی بنچ بنانے کی تجویز  دی گئی ہے۔ آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کئے جائیں گے، تجویز ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گے. تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گی۔حکومت  نے آرٹیکل 199 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔جس کے تحت  عدلیہ استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح نہیں کرسکتی۔آریٹکل 209 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل  کی تشکیل میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، دو سینئر موسٹ ججز اور دو ہائیکورٹ کے چیف جسٹس  ممبر ہونگے۔حکومت نے آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے 90 دن عہدے پر رہ سکتے ہیں جبکہ نیا چیف چیف الیکشن کمشنر تعینات ہو ۔حکومت  نے  آئین کے فورتھ شیڈول میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔ کینٹومنٹ کو لوکل ٹیکسز لینے کا اختیار دینے کی تجویز  دی گئی ہے۔

حکومت نے آئین میں نیا آرٹیکل 191 اے شامل کرنے اورسپریم کوٹ میں آئینی بنچ بنانے کی تجویزدی ہے۔آئینی بینچ کے ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا،آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کئے جائیں گے، تجویز ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گے۔تمام آئینی مقدمات آئینی بینچ سنے گی،حکومت نے آرٹیکل 199 میں ترمیم کی تجویزدی ہے .چیف جسٹس کی تعیناتی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی،کل 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کا تقرر کرے گی۔اب موسٹ سینئر جج چیف جسٹس نہیں بنے گا، تین موسٹ سینئر ججز میں کسی ایک کا انتخاب ہوگا،خصوصی کمیٹی کے 8 ارکان قومی اسمبلی اور چار ارکان سینیٹ کے ہونگے۔حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز بھی دی ہے ،تجویز کے مطابق پارٹی سربراہ اُس کے بعد کاروائی کرسکتا ہے،پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ گنا جائے گا۔حکومت نے ججز تقرری آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز بھی دی ہے جس کے مطابق جوڈیشل کمیشن صرف تقرری کرتا تھا، اب ہائیکورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے 90 دن عہدے پر رہ سکتے ہیں جبکہ نیا چیف چیف الیکشن کمشنر تعینات ہو گا۔حکومت نے آئین کے فورتھ شیڈول میں ترمیم کی تجویزبھی دی ہے ،صدر مملکت ، کابینہ اور وزیر اعظم کی طرف منظور کردہ مشورہ کو کسی عدالت یا ٹربیونل اور کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔آرٹیکل 111میں ترمیم  کی تجویز دی گئی ہے جس کے مطابق  اب ایڈوکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی قانونی معاملات پر صوبائی اسمبلی میں بات کرسکتا ہے۔سپریم کورٹ میں ججز تقرری میں بھی ترمیم کی تجویزدی گئی ،سپریم کورٹ ججز کی تعیناتی میں چار اسمبلی ارکان کمیٹی کے میمبرز ہونگے،دو حکومت اور دو اپوزیشن ارکان کمیٹی کا حصہ ہونگے،حکومت کی طرف ایک سینیٹر اور ایک ایم این اے کا نام وزیر اعظم تجویز کرے گا،اپوزیشن کی طرف سے دو نام اپوزیشن لیڈر تجویز کرے گا۔چیف جسٹس تعیناتی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا. ترمیم میں تجویز اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس کی تعنیاتی کے لئے پہلے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اور موسٹ سینئر جج ملکر چُنتے تھے،ترمیم کے بعد ان دونوں کے ساتھ ایک سینئر وکیل 15سال تجربہ ایک وفاقی وزیر میمبر ہوگا، جو وزیر اعظم کا نامزد کردہ ہوگا۔حکومت نے آرٹیکل 184میں ترمیم کی تجویز دی ہے .حکومت نے چیف جسٹس سے سُومو نوٹس لینے کا اختیار ختم کرنے کی تجویز دی ہے،چیف جسٹس پیٹیشن کے متعلق ہی نوٹس جاری کرسکتا ہے۔آرٹیکل 179میں ترمیم کی تجویز کے مطابق چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس 65 سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے،اگرچہ 60 سال کی عمر میں چیف جسٹس بن گئے تو تین کے بعد عہدے سے ریٹائر ہونا ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن