زلزلے، سیلاب،آفات۔۔ اور کِن نشانیوں کی ضرورت ہے

اُس کے چہرے پر عجب طمانیت تھی چھوٹی سی خوبصورت داڑھی نے اس کے چہرے پر نوربکھیر رکھا تھا وہ بتا رہا تھا کہ وہ ایک کرسچن فیملی سے تعلق ر کھتا تھا۔ چند ماہ قبل ایک مسلمان دوست کے آفس جانے کا اتفاق ہوا ۔ دوست کسی کام سے اٹھ کر باہر گیا تو میز پر پڑی ہوئی ایک ضخیم کتاب پر اس کی نظر پڑی ، وقت گزاری کے لیے اس نے وہ کتاب اٹھا لی انگریزی میں لکھی ہوئی اس کتاب کو الٹ پلٹ کر جب اس نے دیکھا اور چند اوراق پڑھے تو اسے احساس ہوا کہ یہ کوئی غیرمعمولی تحریر ہے اور یہ کتاب بھی کوئی عام کتابوں جیسی نہیں ہے اسے تجسس ہوا حسب عادت اس نے کتاب کا سرورق دیکھا اور مصنف کا نام ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ ہر کتاب کے فرنٹ ٹائٹل پر مصنف کا نام ہوتا ہے۔ ٹائٹل پر صرف لفظ ”قرآن“ انگلش میں کندہ تھا مصنف کا نام نہیں تھا اسی دوران اس کا دوست واپس اپنی سیٹ پر آ گیا۔ اس نے اپنے اس مسلمان دوست سے پوچھا کیا یہ کتاب میں کچھ دنوں کے لیے مستعار لے سکتا ہوں۔دوست نے خوش دلی سے اسے یہ کتاب گفٹ کر دی۔ اس نے چند ہی دنوں میں کتاب کا بڑی باریک بینی اور لگن سے مطالعہ کیا تو اس کے ذہن کے بند دریچے وا ہوتے چلے گئے پھر اسے کتاب کے مصنف کا نام بھی پتہ چل گیا کہ یہ اللہ ذوالجلال کی کتاب قرآن مجید ہے جو اس نے اپنے محبوب پیغمبر اور فخر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھیجی تھی تاکہ انسان صراطِ مستقیم اپنا لیں۔ قرآن پاک کے مطالعے کے بعد اس کے دل میں مسلمان ہونے کی خواہش پیدا ہوئی اور اس نے اسلام پر مزید کتابوں کا مطالعہ کیا اور اب وہ ذہنی طور پر مسلمان ہونے رب کا دین قبول کرنے کے لیے تیار تھا۔ پھر اس نے سوچا کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب ہے اور اسلام دین انسانیت و فلاح ہے تو کوئی معجزہ ضرور ہوگا جو اسے اسلام کی سچائی و حقیقت اس پر آشکار کرے گا ایک رات کو وہ قرآن سامنے رکھ کر بیٹھ گیا کمرے کی لائٹیں بجھا دیں ایک موم بتی روشن کی اور آنکھیں بند کرکے معجزے کا انتظار کرنے لگا ۔چند منٹوں کے بعد آنکھیں کھولیں تو دیکھا موم بتی جل رہی تھی کتاب اللہ اسی طرح اس کے سامنے پڑی تھی اس نے یہ عمل بار بار کیا مگر ہردفعہ نتیجہ وہی رہا ۔موم بتی جلتی رہی اور کتاب سامنے پڑی رہی پھر بھی دل مطمئن نہ ہوا اسے یقین تھا کہ کوئی معجزہ ہوگا اور وہ اسلام قبول کر لے گا مگر چند بار جب کچھ نہ ہوا تو اس نے کتاب اللہ کو اٹھایا اسے کھولا توسامنے کچھ یوں لکھا تھا۔ (چودھواں پارہ آیت نمبر14اور15)میرے نبی یہ آپ سے نشانیاں مانگیں گے کہ آسمانوں کے دروازے ان کے لیے کھول دوں یہ آسمانوں پر چڑھ بھی جائیں تو کہیں گے کہ ہماری آنکھوں کو باندھ دیا گیا ہے ہم پر جادو کر دیا گیا اسی طرح قرآن کریم کے اوراق پلٹے وہ پڑھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں فرعون نے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ میرے لیے ایک مینارہ تعمیر کروادومیں اس پر چڑ ھ کے جھانکوں گا کہ موسیٰ کا خدا ہے کہ نہیں میرا خیال ہے کہ موسیٰ کا خدا جھوٹا ہے پھر اس نے پڑھا کہ ابوجہل نے حضرت محمد صلی اللہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ شہر کے چوک پر آ کر چاند کے ٹکڑے کر دیں۔ اللہ تعالیٰ نے معجزہ دکھایا چاند کا ایک ٹکڑا صفا اور دوسرا مروا کی پہاڑیوں پر گرا۔ پھر اس نے پڑھا(پارہ نمبر15آیت نمبر89،90،91،92) مشرکین مکہ نے حضور نبی اکرم سے نشانیاں مانگیں -1کہ تو ہمارے لیے زمین سے چشمہ نکال۔-2 تیرے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو-3 باغات کے درمیان سے نہریں نکلتی ہوں-4 تو آسمان سے ہمارے لیے ٹکڑا گرا دے -5 یا تو اپنے اللہ کو لے آ-6تو اللہ سے کہہ کہ فرشتے تیرے پاس زمین پر بھیج دے-7تیرا سونے کا ایک گھر ہو-8یا ہمارے سامنے تو آسمان پر چڑھ کر دکھا۔اور آسمان سے لکھی کتاب ہم کو لا کر دکھا جس کو ہم پڑھ سکیں۔اللہ تعالیٰ نے کافرین کے جواب میں بس اتنا کہا کہ اے میر ے پیارے نبی اگر میں یہ سب کچھ کر بھی دوں تو یہ تجھ پر اعتبار نہیں کریں گے؟ ہمارے اس نومسلم دوست نے یہ پڑ ھ کر اللہ تعالیٰ کی حقیقتوں کا اعتراف کیا۔ اللہ رب العزت سے مزید نشانیاں مانگنے سے توبہ کی ،سیدھا امام کے پاس پہنچے اسلام کو صدق دل سے قبول کیا آج وہ مبلغ اسلام بن کر اللہ تعالیٰ کی سچائی کو دنیا بھر میں پھیلانا چاہتا ہے۔ جب سے یہ دنیا ظہور پذیر ہوئی ہے جب سے اللہ رب العزت نے اسلام کو دنیا میں فلاح کے لیے مذہب کے طور پر چنا ہے اور جب ہی سے اللہ تعالیٰ نے قوموں کو بھٹکنے سے بچانے کی کوششیں کیں جب قوم لوط علیہ السلام نے بے راہ راوی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتے بھیجے مگر قوم لوط علیہ السلام نے ان کو بھی اپنی ہوس کا شکار بنانے کی کوشش کی جس پر اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ قوم نوح علیہ السلام نے جب اللہ کے احکامات کے برعکس روش اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے وارننگ بھیجی جس پر جس نے عمل کیا وہ بچ گیا جو ایمان نہ لایا وہ تباہ ہوا۔ حضرت نوح علیہ السلام کے وقت کے سیلاب اور آج ہمارے ہاں آنے والے سیلاب کا جائزہ لیا جائے تو یہ سیلاب سے تباہ ہونے والا رقبہ بلجیم ،آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کے کل رقبے کے مساوی ہے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن