عہد خلافت میں بغداد کے روشن ستارے

Sep 17, 2010

سفیر یاؤ جنگ
محسن فارانی.............
خلیفہ ابوجعفر منصور کا بنا کردہ بغداد خلیفہ مہدی بن منصور اور خلیفہ ہارون الرشید (170ھ/786 تا193ھ/ 809) کے زمانے میں ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ ہارون نے قصر رصافہ بنوایا اور اس کی ملکہ زبیدہ بنت جعفر نے دجلہ کنارے مسجد زبیدہ تعمیر کرائی۔ اس نیک دل ملکہ نے مکہ مکرمہ میں پانی کی فراہمی کیلئے نہر زبیدہ بھی بنوائی تھی، نیز اس نے بغداد کے شمال میں مسجد قطیعہ اور قصر القرار تعمیر کرائے۔ اس کا دادا منصور اسے دودھ بلونے والی متھنی کی طرح ہاتھوں میں کھلاتے ہوئے زبیدہ، زبیدہ (متھنی،متھنی) پکارا کرتا تھا اور وہی اس کا نام پڑ گیا۔ بغداد کی ترقی میں برمکی خاندان نے خاصا حصہ لیا۔ بلخ (شمالی افغانستان) سے بغداد جا بسنے والے صاحبان اقتدار خالد برمکی، اس کے بیٹے یحییٰ برمکی اور اس کے فرزندوں فضل اور جعفر نے بہت نام پایا حتیٰ کہ ہارون الرشید کا عتاب نازل ہوا اور اس نے انہیں ملیا میٹ کردیا۔ غالباً فضل اور جعفر کے بڑھتے ہوئے اقتدار نے ہارون کو اس انتہائی اقدام پر مجبور کردیا تھا۔ خلیفہ موسیٰ الہادی بن مہدی اور ہارون الرشید بن مہدی کے زمانے میں امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد قاضی ابو یوسف 17 سال قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز رہے۔ کتاب الخراج کے مصنف ابو یوسف فقیہ اور محدث تھے۔ ان کا ایک دلچسپ واقعہ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں رقم کیا ہے کہ ان کی والدہ نے امام ابوحنیفہؒ سے کہا:اسے اپنے درس میں شرکت سے روکیے تاکہ یہ کچھ کمانے کے قابل ہو جائے۔ امام صاحب نے کہا:’’یہ تو پستے کے گھی میں فالودہ کھانا سیکھ رہا ہے۔‘‘ ابویوسفؒ کی والدہ نے اسے مذاق جانا۔ لیکن بہت برسوں بعد جب قاضی القضاۃ کی حیثیت سے ایک روز وہ ہارون الرشید کے دستر خوان پر کھانا کھارہے تھے تو خلیفہ نے ایک پیالہ پیش کرتے ہوئے کہا:’’یہ پستے کے روغن میں بنا ہوا فالودہ ہے۔‘‘ اس پر قاضی صاحب کو حیرت سے ہنسی آگئی۔ ہارون نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے سارا قصہ بیان کیا۔ ہارون حیرت زدہ ہو کر کہنے لگا:’’اللہ تعالیٰ ابوحنیفہ پر رحم فرمائے !وہ اپنی عقل کی آنکھ سے وہ کچھ دیکھتے تھے جو چشمِ سر سے نظر نہیں آسکتا۔‘‘
عہد ہارون کے ایک صاحب کمال بہلول داناتھے۔ 188ھ میںسفرِحج کے دوران میں خلیفہ ہارون کی کوفے میں ان سے ملاقات ہوئی جس کا ذکر امام ابن کثیرؒ نے بھی کیا ہے۔ بہلول نے ہارون کو جو نصیحتیں کیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ’’فرض کرلے کہ تو ساری دنیا کا بادشاہ بن گیا ہے اور لوگ تیرے مطیع ہوگئے ہیں، تو پھر کیا ہوگا۔ کیا کل قبر کا پیٹ تیرا ٹھکانہ نہ ہوگا؟ پھر لوگ یکے بعد دیگرے تجھ پر مٹھیوں سے مٹی ڈالیں گے۔‘‘ بغداد میں بہلول دانا کے مزار کے ایک گوشے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں سکھ مذہب کے بانی گرونانک نے چلّہ کاٹا تھا۔
مغربی بغداد رصافہ یا کاظمیہ کہلاتا ہے کیونکہ یہاں حضرت موسیٰ کاظمؒ مدفون ہیں جنہیں اہلِ تشیع اپنا ساتواں امام گردانتے ہیں۔ مزار موسیٰ کاظم کے احاطے میں جنوبی جانب ایک مسجد جامع ابی یوسف کے نام سے بنی ہوئی ہے۔ اس مسجد کے ایک حصے میں امام ابو یوسفؒ کا مزار ہے۔ اسلام میں قاضی القضاۃ کا لقب سب سے پہلے انہی کیلئے استعمال ہوا۔ جہاں تک امام موسیٰ کاظمؒ کا تعلق ہے، خلیفہ مہدی کو ان کے متعلق بغاوت کا شبہ ہوا تو انہیں قید میں ڈال دیا۔ اس دوران میں خلیفہ کو خواب میں حضرت علیؓ کی زیارت ہوئی جو سورہ محمد کی یہ آیت پڑھ رہے تھے:’’پھر کیا تم سے یہی توقع ہے کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد مچائو اور رشتہ داریاں کاٹ ڈالو؟‘‘ مہدی کی آنکھ کھُلی تو فوراً حکم دیا کہ موسیٰ کاظمؒ کو ابھی یہاں لے آئو۔ وہ تشریف لائے تو ان سے معانقہ کرکے انہیں اعزاز کے ساتھ پاس بٹھایا اور کہا:’’اگر میں آپ کو رہا کردوں تو آپ میرے یا میری اولاد کے خلاف بغاوت تو نہیں کریں گے؟‘‘ موسیٰ کاظمؒ نے اپنے پُرامن رہنے کا یقین دلایا تو مہدی نے انہیں رہا کرکے 3 ہزار دینار ہدیہ پیش کیا۔ بعد میں ہارون خلیفہ بنا اور حج کیلئے گیا تو واپسی پر موسیٰ کاظمؒ کو ساتھ لے آیا اور بغداد میں قید کردیا کیونکہ اسے بھی مہدی کی طرح خطرہ محسوس ہوا ہوگا۔ موسیٰ کاظمؒ نے قید خانے سے ہارون کو خط لکھا:
’’میری آزمائش کا جو دن بھی کٹتا ہے، وہ تمہاری عیش و عشرت کا ایک دن کاٹ کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے حتیٰ کہ ہم دونوں ایک ایسے دن میں پہنچ جائیں گے جو کبھی کٹ نہیں سکے گا۔ اس دن خسارہ انہیں ہوگا جو باطل پر ہیں۔‘‘
کثرتِ عبادت کی بنا پر امام موسیٰ کاظمؒ کا لقب ’’العبد الصالح‘‘ مشہور تھا۔ قید ہی میں 163 میں وہ وفات پاگئے۔ انہی کے مرقد کے باعث بغداد کے اس محلے کا نام کاظمیہ ہے۔ معروف کرخیؒ (متوفی 200ھ)، سری سقطیؒ اور جنید بغدادیؒ اس دور کے مشہور بزرگ ہیں جو بغداد میں دفن ہیں۔معروف ایک عیسائی خاندان کے بچے تھے۔ ان کا عیسائی استاد انہیں باپ بیٹے کا عقیدہ سکھاتا مگر وہ ’’احد، احد‘‘ پڑھتے رہتے۔ اس پر استاد نے بہت مارا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور لاپتہ ہوگئے۔ ان کی والدہ رو رو کر کہتیں: اگر اللہ نے معروف کو میرے پاس لوٹا دیا تو جو دین وہ چاہے گا اسے اختیار کرنے سے نہیں روکوں گی۔‘‘ کئی سال بعد واپس آئے تو ماں نے پوچھا: کس دین پر ہو؟ جواب دیا: اسلام پر! اس پر والدہ اور پورا گھرانا مسلمان ہوگیا۔ شیخ سری سقطیؒ(متوفی 251ھ) انہی کے شاگرد تھے۔ جنید بغدادیؒ(متوفی 297ھ) سری سقطیؒ کے بھانجے تھے۔ ان کے آباء کا تعلق نہاوند (ایران) سے تھا۔ شیخ جنیدؒ باعمل صوفی تھے۔ اسی لئے ابن تیمیہؒ اور ابن کثیرؒ نے ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کیا ہے۔ جنیدؒ کے نزدیک صحیح معنوں میں وہی شخص صوفی ہوسکتا ہے جو قرآن کا حافظ ہو اور علمِ حدیث میں اسے رسوخ حاصل ہو۔ وہ پابند شریعت تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب ان کا شاگرد منصور حلّاج حدود شریعت سے نکل کر اناالحق کہنے لگا تو جنیدؒ نے اس سے تعلقات توڑ لیے۔
عباسی خلفاء میں سے ہارون کے بیٹے مامون الرشید اور معتصم باللہ بہت مشہور ہوئے۔ مامون نے بغداد میں بیت الحکمت قائم کیا جہاں یونانی اور سنسکرت کی کتابوں کے تراجم ہوتے تھے۔ اس کا جانشین معتصم باللہ اس قدر اسلامی حمیّت سے سرشار تھا کہ جب عیسائیوں نے ملطیہ(ترکی) کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیے اور ایک ہاشمیہ خاتون نے ’’وامعتصما‘‘ کہہ کر فریاد کی تو معتصم نے فوراً کوچ کا حکم دیا۔ آرمینیا سے سپہ سالار افشین کا لشکر چلا آیا۔ انہوں نے نہ صرف مظلوم مسلمان عیسائیوں کی قید سے چھڑائے بلکہ قیصر روم کی جائے پیدائش عموریہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ محمد بن قاسم کی فتح سندھ کے بعد کسی مسلمان خاتون کی فریاد پر جہادی یلغار کا یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ مامون، معتصم اور واثق باللہ کے زمانے میں فتنۂ معتزلہ نے زور پکڑا اور امام احمد بن جنبلؒ کو خلق قرآن کے مسئلے پر ان خلفاء کے غیظ و غضب اورقید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔
خلیفہ معتمد علی اللہ (256ھ تا279ھ) کے عہد میں عروس البلاد بغداد کی شان و شوکت عروج پر تھی۔ اسے ’’فردوسِ ارضی‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ شہر کا طول ساڑھے آٹھ کلو میٹر اور عرض سوا سات کلو میٹر تھا۔ یہاں کے ریشمی و سوتی کپڑے سقلطون، مُلحم اور عتابی دنیا بھر میں مشہور تھے۔ مقتدر باللہ کے عہد میں شاہی طبیب سنان بن ثابت نے بغداد میں 860 طبیبوں کو اجازت نامے دیئے۔ بیمارستان السیدہ اور بیمارستان مقتدری (306ھ/918ئ) اور بیمارستان عَضُدی(372ھ/ 982ئ) یہاں کے مشہور شفاخانے تھے۔ آخر الذکر عضد الدولہ بُویہی نے قائم کیا تھا۔ شیعہ آلِ بویہ شمالی ایران سے آکر ایک سو سال سے زیادہ عرصہ بغداد میں منصبِ وزارت پر فائز رہے جبکہ عباسی خلفاء ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی تھے، چنانچہ معزالدولہ بویہی نے بغداد میں 10محرم 352ھ کو پہلا ماتمی جلوس نکالا، نیز 18 ذوالحجہ کو ’’یوم غدیر‘‘ منانا شروع کیا۔ 361ھ میں کرخ کے شیعہ سُنی فسادات میں 17 ہزار نفوس مارے گئے اور 33مسجدیں نذرِ آتش ہوئیں۔ آخر کار رے(ایران) کا حکمران طغرل بیگ سلجوقی 447ھ/1055ء میں لشکر لے کر بغداد میں وارد ہوا اور اس نے شیعہ بُویہی اقتدار کا خاتمہ کردیا، تاہم اگلے سال بساسیری نے بغداد پر قبضہ کرکے وہاں مصر کے فاطمی خلیفہ کا خطبہ پڑھوا دیا اور عباسی خلیفہ القائم بامراللہ (422ھ تا467ھ) کو دارالخلافہ سے جلاوطن ہونا پڑا، تاہم خلیفہ کی درخواست پر طغرل بیگ نے آ کر بساسیری کو شکست دی۔ بساسیری مارا گیا اور بغداد میں القائم بامراللہ کی خلافت بحال ہوگئی۔ 484ھ میں ملک شاہ سلجوقی نے بغداد کی مسجد مخرم نئے سرے سے تعمیر کی جو جامع السلطان کہلائی۔ آل بویہ کی جگہ لینے والے سلجوقی حکمران سلطان کہلاتے تھے اور ملک شاہ کے زمانے میں ان کی سلطنت ماوراء النہر(ترکستان) سے لے کر اناطولیہ (ترکی) کے مغرب تک قائم تھی۔
مزیدخبریں