نجانے الطاف حسین نے یہ بات کس کے حق میں کہی اور کس کے خلاف کہی۔ کہ ”ملک میں مارشل لاءجیسے اقدام کی ضرورت ہے“ بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ بات پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف ہے۔ صدر زرداری بالکل پریشان نہ ہوئے البتہ وزیراعظم کو بہت ڈر لگا۔ مسلم لیگ ن والوں نے نجانے کیوں یہ بات اپنے خلاف لے لی، جاگیرداری نظام کے خلاف بھی بات تھی مگر شریف برادران جاگیر دار تو نہیں پھر یہ تاثر کیوں عام ہوا کہ جاگیرداری ایک ذہنیت اور ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اقتدار میں آکے یہ کیفیت کیفیات میں بدل جاتی ہے۔ قومی اسمبلی میں چودھری نثار اور فاروق ستار نے ایک دوسرے کی قیادت کے خلاف دھواں دار تقریریں کیں۔ پہل چودھری نثار نے کی اور اس کی کوئی ضرورت نہ تھی نجانے کیا مقاصد اس کے دل میں ہوتے ہیں کیا اسے معلوم ہے کہ اس کی تقریر کے دوران پیپلزپارٹی اور اے این پی والے کیوں تالیاں بجا رہے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر بابر اعوان نے پارلیمانی حکمت اور حکومتی بصیرت کا ثبوت دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ایوان میں دو قراردادیں پیش کیں۔ ایک قرارداد سے مسلم لیگ ن خوش ہو گئی مگر ایم کیو ایم خفا نہ ہوئی دوسری قرارداد سے ایم کیو ایم خوش ہو گئی مگر ن لیگ خفا نہ ہوئی۔ پہلی قرارداد میں غیر آئینی اقدامات کے خلاف بات کی گئی تھی۔ مارشل لاءیا مارشل لاءجیسے اقدام کی بات ہی نہ کی گئی۔ اس کے علاوہ بھی غیر آئینی اقدام ہو سکتا ہے۔ الطاف حسین کی براہ راست مخالفت نہ کی گئی۔ دوسری قرارداد میں جاگیرداری نظام کے خلاف بات کی گئی تھی۔ جاگیردار بھی جاگیرداری نظام کے حق میں بات نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام کسی نہ کسی طرح موجود رہے گا۔
جب الطاف حسین نے صدر زرداری کا نام لے کے بات کی تھی کہ انہیں قربانی دینا چاہیے تو اس وقت بھی صدر زرداری نے اپنے احساسات کا برملا اظہار نہ کیا۔ قربانی نہ دی اور بات آسانی سے رفع دفع ہو گئی۔ اب کہنے والوں نے صدر زرداری کو بہت کہا کہ الطاف حسین کا اشارہ آپ کی حکومت کی طرف ہے مگر صدر زرداری نے اپنی بے قراری کا پتہ کسی کو چلنے نہ دیا البتہ وزیراعظم گیلانی اپنا خوف نہیں چھپا سکا۔ چودھری نثار اور دوسرے چالاک وفاداروں نے سارا ملبہ اپنی قیادت پر ڈال دیا نجانے یہ سیاست صدر زرداری نے کہاں سے سیکھی ہے وہ دوستوں مخالفوں دونوں کو پریشان بھی کر دیتے ہیں اور حیران بھی کر دیتے ہیں۔ مجاہد صحافت مجید نظامی نے اس کو مرد حُر کا خطاب دیا جو ابھی تک کئی سیاستدانوں کو تکلیف دیتا ہے۔ صدر زرداری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اعزاز کی لاج رکھیں۔ سیاست میں تحمل کی پالیسی اپنا کر انہوں نے مفاہمت کی راہ اختیار کی انہیں خبر ہو گئی کہ مفاہمت کے اندر مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ فرینڈلی اپوزیشن کی باتیں بھی اپوزیشن نے سنیں اور ان کا تعاون بھی جہاں حکومت کو چاہیے تھا حاصل کر لیا گیا۔ یہ نوازشریف کی حکمت عملی ہے جو بہرحال قابل تحسین ہے کہ وہ جمہوریت بچانا چاہتے ہیں مگر حکمت عملی کبھی کبھی ”حکومت عملی“ بن جاتی ہے ان کی پالیسیوں کی تشریح اور دفاع مضبوط انداز میں ڈاکٹر بابر اعوان نے کیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان دفاعی انداز میں جارحیت کرتے ہیں اور جارحانہ انداز میں دفاع کرتے ہیں۔ وہ لاہور آئے تو چند صحافیوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں دو ملاقاتیں کیں۔ پتہ نہیں چلا کہ وہ وزیر ہیں ان کے وزیر شذیر ہونے کا تو بالکل پتہ نہیں چلا۔ برادرم فرخ سہیل گوئندی نے اس ملاقات کا گورنر ہاوس میں اہتمام کیا۔ اس دوران وہ گورنر ہاوس نہیں لگ رہا تھا کمپلیکس فری شخصیت والے بابر اعوان نے سیاسی گفتگو بھی غیر سیاسی انداز میں کی۔ دوست شاعر رضی حیدر نے بہت خوبصورت اشعار سنائے۔ اس شعر کو سب نے انجوائے کیا مگر اس کے مطلب کئی نکلتے ہیں نجانے ڈاکٹر بابر اعوان کے ذہن میں کیا ہو گا۔ یہ شعر صدر زرداری کو بھی سنایا جائے
موسم بھی چاندنی بھی ہوا بھی شراب بھی
اب اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں رہا
یہ شعر شہبازشریف کو بھی سنایا جائے وہ صاحب ذوق ہیں اور شعیب بن عزیز انہیں کہتے رہتے ہیں کہ اب کچھ نئے اشعار بھی یاد کر لیں۔ شعیب اپنے اشعار شہبازشریف کو کیوں نہیں سناتا
خوف اور خواہش کے درمیان نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا
میں تو مشاعروں میں شریک ہو کے بھی اشعار نہیں سناتا۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے بھی اشعار سن لئے
اس کے میرے درمیاں ہیں فیصلوں کے فاصلے
میں یہاں موجود ہوں اور وہ وہاں موجود ہے
بامعنی اور معنی خیز اچھے اور گہرے جملے ڈاکٹر بابر اعوان بولتے ہیں۔ ”اقتدار میں شیر شاہ سوری بننے والے جب شیر شاہ نہیں رہتے تو صرف سوری (Sorry) کرتے رہتے ہیں۔ دوست پوچھتے رہے کہ سیاسی کشمکش سے ہمیں کون نکالے گا۔ اس ساری محاذ آرائی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کوئی بات کی مگر کچھ ”پلے نہیں پڑا“ پھر یہ جملہ کہا کہ ”رضیہ بھونڈوں میں پھنس گئی ہے“ سیاستدانوں کی رضیہ تو حکومت ہے۔ یہ رضیہ بھونڈ عاشقوں میں پھنس گئی ہے۔
مجاہد صحافت مجید نظامی کے گھر جا کے گزشتہ روز ڈاکٹر صاحب انہیں ملے۔ مجید نظامی نے کہا کہ مجھ سے ارشاد حقانی نے پوچھا کہ مجھے وزیر بنایا جا رہا ہے تو میں نے اسے کہا کہ پھر تم سیڑھیاں چڑھ کر مجھ تک نہیں آ سکو گے۔ نوائے وقت کے خواجہ فرخ سعید اور فرخ بصیر کو انٹرویو دیا۔ ”مشرف نے جن کی حکومت توڑی تھی وہی ان کے خلاف مقدمہ درج کرائیں۔“ اس طرح کے کسی مقدمے کا کبھی کوئی فیصلہ ہوا ہے؟ بھٹو صاحب کو سزا ایک جرنیل نے دی تھی اور یہ عدالتی قتل تھا۔ ایک جرنیل کو کون سیاستدان سزا دے گا اور اسے سزائے موت ہوئی تو اسے کون سے قتل کا نام دیا جائے گا؟
جب الطاف حسین نے صدر زرداری کا نام لے کے بات کی تھی کہ انہیں قربانی دینا چاہیے تو اس وقت بھی صدر زرداری نے اپنے احساسات کا برملا اظہار نہ کیا۔ قربانی نہ دی اور بات آسانی سے رفع دفع ہو گئی۔ اب کہنے والوں نے صدر زرداری کو بہت کہا کہ الطاف حسین کا اشارہ آپ کی حکومت کی طرف ہے مگر صدر زرداری نے اپنی بے قراری کا پتہ کسی کو چلنے نہ دیا البتہ وزیراعظم گیلانی اپنا خوف نہیں چھپا سکا۔ چودھری نثار اور دوسرے چالاک وفاداروں نے سارا ملبہ اپنی قیادت پر ڈال دیا نجانے یہ سیاست صدر زرداری نے کہاں سے سیکھی ہے وہ دوستوں مخالفوں دونوں کو پریشان بھی کر دیتے ہیں اور حیران بھی کر دیتے ہیں۔ مجاہد صحافت مجید نظامی نے اس کو مرد حُر کا خطاب دیا جو ابھی تک کئی سیاستدانوں کو تکلیف دیتا ہے۔ صدر زرداری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس اعزاز کی لاج رکھیں۔ سیاست میں تحمل کی پالیسی اپنا کر انہوں نے مفاہمت کی راہ اختیار کی انہیں خبر ہو گئی کہ مفاہمت کے اندر مزاحمت ہوتی ہے۔ وہ اس سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ فرینڈلی اپوزیشن کی باتیں بھی اپوزیشن نے سنیں اور ان کا تعاون بھی جہاں حکومت کو چاہیے تھا حاصل کر لیا گیا۔ یہ نوازشریف کی حکمت عملی ہے جو بہرحال قابل تحسین ہے کہ وہ جمہوریت بچانا چاہتے ہیں مگر حکمت عملی کبھی کبھی ”حکومت عملی“ بن جاتی ہے ان کی پالیسیوں کی تشریح اور دفاع مضبوط انداز میں ڈاکٹر بابر اعوان نے کیا۔ ڈاکٹر بابر اعوان دفاعی انداز میں جارحیت کرتے ہیں اور جارحانہ انداز میں دفاع کرتے ہیں۔ وہ لاہور آئے تو چند صحافیوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں دو ملاقاتیں کیں۔ پتہ نہیں چلا کہ وہ وزیر ہیں ان کے وزیر شذیر ہونے کا تو بالکل پتہ نہیں چلا۔ برادرم فرخ سہیل گوئندی نے اس ملاقات کا گورنر ہاوس میں اہتمام کیا۔ اس دوران وہ گورنر ہاوس نہیں لگ رہا تھا کمپلیکس فری شخصیت والے بابر اعوان نے سیاسی گفتگو بھی غیر سیاسی انداز میں کی۔ دوست شاعر رضی حیدر نے بہت خوبصورت اشعار سنائے۔ اس شعر کو سب نے انجوائے کیا مگر اس کے مطلب کئی نکلتے ہیں نجانے ڈاکٹر بابر اعوان کے ذہن میں کیا ہو گا۔ یہ شعر صدر زرداری کو بھی سنایا جائے
موسم بھی چاندنی بھی ہوا بھی شراب بھی
اب اس کے پاس کوئی بہانہ نہیں رہا
یہ شعر شہبازشریف کو بھی سنایا جائے وہ صاحب ذوق ہیں اور شعیب بن عزیز انہیں کہتے رہتے ہیں کہ اب کچھ نئے اشعار بھی یاد کر لیں۔ شعیب اپنے اشعار شہبازشریف کو کیوں نہیں سناتا
خوف اور خواہش کے درمیان نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا
میں تو مشاعروں میں شریک ہو کے بھی اشعار نہیں سناتا۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے بھی اشعار سن لئے
اس کے میرے درمیاں ہیں فیصلوں کے فاصلے
میں یہاں موجود ہوں اور وہ وہاں موجود ہے
بامعنی اور معنی خیز اچھے اور گہرے جملے ڈاکٹر بابر اعوان بولتے ہیں۔ ”اقتدار میں شیر شاہ سوری بننے والے جب شیر شاہ نہیں رہتے تو صرف سوری (Sorry) کرتے رہتے ہیں۔ دوست پوچھتے رہے کہ سیاسی کشمکش سے ہمیں کون نکالے گا۔ اس ساری محاذ آرائی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کوئی بات کی مگر کچھ ”پلے نہیں پڑا“ پھر یہ جملہ کہا کہ ”رضیہ بھونڈوں میں پھنس گئی ہے“ سیاستدانوں کی رضیہ تو حکومت ہے۔ یہ رضیہ بھونڈ عاشقوں میں پھنس گئی ہے۔
مجاہد صحافت مجید نظامی کے گھر جا کے گزشتہ روز ڈاکٹر صاحب انہیں ملے۔ مجید نظامی نے کہا کہ مجھ سے ارشاد حقانی نے پوچھا کہ مجھے وزیر بنایا جا رہا ہے تو میں نے اسے کہا کہ پھر تم سیڑھیاں چڑھ کر مجھ تک نہیں آ سکو گے۔ نوائے وقت کے خواجہ فرخ سعید اور فرخ بصیر کو انٹرویو دیا۔ ”مشرف نے جن کی حکومت توڑی تھی وہی ان کے خلاف مقدمہ درج کرائیں۔“ اس طرح کے کسی مقدمے کا کبھی کوئی فیصلہ ہوا ہے؟ بھٹو صاحب کو سزا ایک جرنیل نے دی تھی اور یہ عدالتی قتل تھا۔ ایک جرنیل کو کون سیاستدان سزا دے گا اور اسے سزائے موت ہوئی تو اسے کون سے قتل کا نام دیا جائے گا؟